Ticker

6/recent/ticker-posts

سلام بحضور امام حسین علیہ السلام درود پاک | درود و سلام اردو | درود شریف

سلام بحضور امام حسین علیہ السلام | Durood O Salam Lyrics In Urdu

دلِ سیاہ کا ہر گز نہیں ہے چین حسین
جو حق شناس ہے وہ ہی کہے حسین حسین
۔
چراغِ پنجتنی کا یہی اجالا ہے
رِسالت اور امامت کا زیب و زین حسین
۔
مشارِق اور مغارِب کا جو امام ہوا
اسی کا لَختِ جِگر شاہِ مشرِقین حسین
۔
سوار دوشِ رسالت ص پہ جو امامت تھی
اسی بِناے اِمامت کا نورِ عین حسین
۔
کئے طویل جو سجدے تو یہ بتانے کو
نماز و روزہ و قرآن قبلتین حسین
۔
نجات کا ھے سفینہ بحکمِ شاہِ امم
جنابِ فاطِمہ زِھرا کا نورِ عین حسین
۔
ہر ایک چَشمِ بصیرت پہ آشکارا ھے
رسولﷺ پر بخدا ھے خدا کا دَین حسین ع
سمیعہ ناز ملک۔ دبئی

سلامِ حضرتِ امام حسینؐ

شبّیرؐ فقط کہہ کےیہ میدان میں آئے
جان جائے مگرفرق نہ ایمان میں آئے
۔
اسلام پسند اِس لیےدُہراتےہیں اِس کو
ہےواقعہ ایسایہ جوپہچان میں آئے
۔
شبّیرؐ نےوہ کرکےدکھایاہےجہاں کو
جوبات کسی کےبھی نہ امکان میں آئے
۔
شبّیرؐنے جیسےہی علَم حق کالیاتھام
اعمالِ یزیدی کئی میزان میں آئے
۔
حرؐ نےہےکیاجان کوایماں پہ نچھاور
مشکل ہےصفت ایسی اک انسان میں آئے
۔
اکبرؐکی وہ تلوار کا کیا زور بیاں ہو
تلوار کا یہ زور نہ طوفان میں آئے
۔
نسبت کاکرم جاننے یہ کافی ہےنادرؔ
شبّیرؐکااک نام جودیوان میں آئے
نادرؔ اسلوبی-انڈیا

سلام حضرت امام حسین شہید کربلا پر

سلام
دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں
لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں
۔
وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے
وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و اما م لکھوں
۔
یہاں سکینہ کا، اصغر ،اکبر کا اور قاسم کا تذکرہ ہے
ورق ورق پر ہیں اشک پھیلے میں حرف حرف احترام لکھوں
۔
مجھے شہیدوں کا ذکر کرنا ہے سوچ کو معتبر تو کر لوں
قطار میں سارے لفظ رکھوں ،ملے جنہیں پھر دوام لکھوں
۔
ہماری گلیوں میں قتل کب تک روا رہے گا ،سوال پوچھوں
ہمارے ظلمت کدے میں کب ہو گا روشنی کا قیام لکھوں
۔
یہی تقدس ہے اب تو میرا،اسی سے نجمہ مری حفاظت
میں اپنی چادر کے چاروں کونوں پہ بی بی زینب کا نام لکھوں
طالب دعا — ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

سلام بحضور امام عالی مقام

کربل والوں کے دم سے ہے ،ہم کو پیارا ماتم
اپنے دکھوں میں اس جیون کا، بس ہے سہارا ماتم
۔
جہاں پہ مشکیزے پر تیر لگا تھا اک ظالم کا
کرتا ہو گا نہر ِفرات کا ،اب وہ کنارہ ماتم
۔
جب تاریکی میں بی بی زینب کے دکھ کو سوچا
ان پلکوں پر چمک اٹھا تھا ، ایک ستارا ماتم
۔
کربل کے دامن میں سیکھیں عشق کی رمزیں ساریں
نیزے پر ہے محو تلاوت، راج دلارا ماتم
۔
عشق نے ہجر ووصل کو جب اک جیساہی ملبوس کیا
کیا جانے پھر کون سے دکھ کاہے یہ اشارہ ماتم
۔
تپتی ریت پہ وہ ننھی معصوم سسکتی جانیں
جن کے لہو سے ظلم نے ہر اک دل میں ابھارا ماتم
۔
اپنا جیون تو شاہین بہے، بس اس دھارے میں
ایک کنارہ گریے والا، ایک کنارہ ماتم
۔
دعاؤں کی طالب ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

سلام حضرت امام حسین شہید کربلا پر

سلام
نذرانہء عقیدت
حسین ابنِ علی علیہ السلام
۔
میرا طریق نقش قدم ہے حسین کا
سر کٹ بھی جائے حوصلہ ٹوٹا نہیں کبھی
۔
رہتا ہوں سر بکف میں یزیدوں کے روبرو
تیر و تفنگ ہاتھ سے چھوٹا نہیں کبھی
شہزاد تابشِ
لاھور، پاکستان

سلام شہید کربلا حضرت امام حسین کی شان میں

نجابتوں سے منور حسب حسینؑ کا ہے
طہارتوں سے مزین نسب حسینؑ کا ہے
۔
پناہ تجھ کو ملے گی کہاں یزیدِ لعیں
کہ شش جہات زمیں عرش سب حسینؑ کا ہے
۔
سناں کی نوک پہ سر آیتیں پڑھے اس کا
”مثیل کوئی زمانے میں کب حسینؑ کا ہے“
۔
حسینُ منی کا فرمان یہ بتاتا ہے
ادب رسولؐ کا یعنی ادب حسینؑ کا ہے
۔
ہم انکا ذکر محرم پہ کیوں کریں موقوف
ربیع الاول و ذی الحج رجب حسینؑ کا ہے
۔
امام ہیں بلا تخصیص رنگ و نسل کے وہ
عجم حسین کا لوگو عرب حسینؑ کا ہے
۔
میں کیوں کہوں انہیں مظلوم جاں بلب تنہا
فرات خود جسے ترسا وہ لب حسینؑ کا ہے
محمد عمران تنہا

درود پاک ۔ درود شریف امام حسین اور شہیدان کربلا پر

اس کے استقلال پر مل کر سبھی بھیجیں درود
کربلا سے شام تک جس کا سفر نیزے پہ ہے
۔
سر برہنہ دیکھ کر تطہیر کی آیات کو
ایک چہرہ آنسوؤں سے تر بتر نیزے پہ ہے
۔
خون روتے ہی رہے سجاد منظر یہ دیکھ کر
شام تک جو زینب مضطر کی نظر نیزے پہ ہے
۔
خون روتی ہے آج ساری کائنات
محسن انسانیت کا جگر نیزے پہ ہے
۔
سنتا ہوں حیدر مسلسل جب اذانوں کی صدا
لگتا ہے کہ اب تک محمد کا پسر نیزے پہ ہے
التماس دعا ۔ علی حیدر لاہور

سلام سید الشہداء حضرت امام حسین

کوئی جلا نہ سکا اس طرح وفا کے چراغ
درُونِ دشت جلے جیسے مصطفیٰ کے چراغ
۔
یزید کا تو کوئی نام بھی نہیں لیتا
چمک رہے ہیں زمانے میں کربلا کے چراغ
۔
حُسین کرتا ہے اپنے پرائے کی تفریق
کہِیں جلا کے دیے اور کہِیں بُجھا کے چراغ
۔
بہتّروں نے اندھیروں کو نُور کر ڈالا
برنگِ خونِ شہیداں جلا جلا کے چراغ
۔
تھی روشنی کی ضرورت جہانِ تِیرہ کو
سو رزم گاہ سے لائے گئے اُٹھا کے چراغ
۔
سلام کرتی ہے دنیا جنابِ زینب کو
کہ جن کے عزم نے روشن کیے حیا کے چراغ
۔
حُسینیوں نے بہر گام کردیے روشن
کہِیں نجومِ مودّت کہِیں وِلا کے چراغ
۔
حُسین تیرے لہو سے بچا ہے دِینِ نبی
کہ جس سے نُور فشاں ہو گئے خدا کے چراغ
۔
سلام عابدِ بیمار کے لیے عالم
اُسی کے دم سے ہیں روشن یہاں شفا کے چراغ
آفتاب عالم قریشی

شہید کربلا پر پر سلام | سلام بہ حضور عالی مقام

مسالمہ
اے امیر باصفا شبان فردوس بریں
یہ مقام شرف و عزت آفریں صد آفریں
دید سے تیرے ، فزوں تر میرا ایمان ویقیں
اے ترے خوں سےقوی شیرازہ شرع متیں
۔
پاسدار آبروئے نعرۂ تکبیر سن !
قصر باطل کے لئے اے برق عالمگیر سن!
۔
چھڑگیا ہے پھر جہاں میں کربلائےخیر وشر
مبتلا آلام میں ہے امت خیر البشر
پھر کھلا ہے دختران فاتح خیبر کا سر
پھر پڑی ہے چادر زینب پہ شمروں کی نظر
۔
دیکھ کچھ تو اضطراب روح عثمان وعمر
الحذر ! اے ورثئہ بوبکر و حیدر الحذر !
۔
پھر جہاد زندگانی میں ہیں تیغیں بے نیام
پھر ا فق پر سامری ہے اور فرعونی نظام
دے قیامت خیز کوئ ایسا رحمانی پیام
سیرت فولاد ہو جائے ترا ہر تشنہ کام
۔
زنگ آلودہ نگاہوں کو سلامت کی دعا
سبزئہ نو رستہ کو دے سرو قامت کی دعا
۔
ظلمتوں کی بادشاہی ہے زمیں پر چار سو
حرمت اسلام پر آنے لگی شب خوں کی بو
پھر زمین کربلا نے ہم سے مانگا ہے لہو
ہم فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو
۔
پھر بہائے اشک خوں اس آسمان پیر نے
پھر ہوئ سورج کو حیرت پھر کہا شمشیر نے
کانپتے ہاتھوں سے لکھا کاتب تقدیر نے
پھر مورخ کی زباں میں شور عالمگیر نے
۔
پاسدار آبروئے نعرئہ تکبیر نے
" زیر خنجر بھی کیا شکر خدا شبیر نے "
۔
تھی پیام موت ہر قیصر کو جن کی اک نظر
سطوت کسری تھی جن کے سامنے زیر و زبر
تھی جہا ں میں گوہر نایاب جن کی چشم تر
خون گردوں رورہا ہے آج ان کی آل پر
۔
مانتا ہوں میں کہ ہے کوتاہ بزمی کی نظر
اب کہا ں سے لاؤں ان اسلاف کا قلب و جگر
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستہان

سلام Salam Muslim Shayari

شبیر ضوفشاں کو ہمارا سلام ہو
اسلام کی زباں کو ہمارا سلام ہو

اللہ کا کلام مع الصابرین کی
آیت کے ترجماں کو ہمارا سلام ہو

جس کے عمل سے دین میں پھر آگئی بہار
اس ماحیء خزاں کو ہمارا سلام ہو

ایسا نشاں کہ مٹ نہیں سکتا کبھی بھی وہ
سچائی کے نشاں کو ہمارا سلام ہو

جس سے ہدایتوں کی کرن پھوٹنے لگی
سورج کے اس مکاں کو ہمارا سلام ہو

عشاق ان کو مدح کے گل دے رہے ہیں یوں
سردار عاشقاں کو ہمارا سلام ہو

جس میں حسینی دیکے لہو کامراں ہوئے
اس ریت امتحاں کو ہمارا سلام ہو

تلوار اٹھائی کیسے بھلا میزبانوں نے
کوفے کے میہماں کو ہمارا سلام ہو

سبط رسول ، جس پہ ہوئے سجدے خود نثار
اس شاہ زاہداں کو ہمارا سلام ہو

خود رہ کے پیاسے دین کو سیراب کردیا
کربل کے تشنگاں کو ہمارا سلام ہو

شبیر کے لیے ہوئے قربان سب کےسب
شبر کے خانداں کو ہمارا سلام ہو

حر کو کیا معاف جگہ دے دی قلب میں
شفقت کے آسماں کو ہمارا سلام ہو

پیری میں بھی تھے ابن مظاہر جوان خوب
حق کے اسی جواں کو ہمارا سلام ہو

اصغر جنھوں نے جان دی اسلام کے لیے
چھ مہ کے پاسباں کو ہمارا سلام ہو

جو گوش حق میں گونجتی ھے "عینی" آج بھی
کربل کی اس اذاں کو ہمارا سلام ہو
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
یا حسین Ya Hussain لبّ بیک
Read More اور پڑھیں

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ