Ticker

6/recent/ticker-posts

اسلام میں نحوست و بدفالی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے | دینی مسائل

اسلام میں نحوست و بدفالی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے | دینی مسائل

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سکریٹری / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی ، جھارکھنڈ
اسلام میں نحوست و بدفالی اور بدشگونی کی کوئی جگہ نہیں ہے، دوسرے کو بیماری لگنے، پرندہ سے نیک فالی اور بدفالی لینے، الو اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھل کر ان باطل تصورات کی تردید کردی ۔ جو شخص جتنا بڑا توحید پرست ہوگا اور توحید پر جتنا پختہ یقین ہوگا اور اللہ پر جس کا جتنا زیادہ ایمان ہوگا وہ اسی قدر اوہام و خرافات اور توہمات سے دور ہوگا اور اوہام پرستی اور توہمات کی اسیری سے محفوظ رہے گا۔اگر ایمان مضبوط ہو اور عقیدہ ٹھوس ہو اور اللہ سے نفع و نقصان کا سچا یقین ہو تو ایک ناخواندہ اور ان پڑھ شخص بھی ایسے اوہام و خرافات میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ تیمور لنگ کوئی عالم فاضل حکمراں نہیں تھا۔ لیکن جب اس نے دریائے جمنا کو عبور کرنا چاہا تو جوتشیوں نے منع کیا اور کہا کہ یہ منحوس گھڑی ہے، تیمور لنگ نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی اور کہا کہ ہم ارباب توحید ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے، یہ تو مشرکین اور تثلیث پر ایمان رکھنے والوں کا عقیدہ ہے۔ سچائی یہی ہے کہ اگر ایمان میں نا پختگی اور یقین میں کمزوری ہو تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی چیزوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عربوں میں قسم قسم کے توہمات پائے جاتے تھے، سفر شروع کرنے سے پہلے پرندے کو اڑایا جاتا تھا، اگر وہ دائیں اڑتا تو اسے نیک فال تصور کرتے اور سفر کرتے اور اگر بائیس طرف اڑتا تو بدفالی لیتے اور سفر سے گریز کرتے، اسی طرح الو کو منحوس پرندہ خیال کرتے، کسی کے گھر پر بیٹھ جاتا تو سمجھتے کہ یہ گھر اجڑ جائے گا، کسی حاملہ عورت پر گزرے گا تو اس عورت کا بچہ مردہ پیدا ہوگا، صفر کے مہینہ کو بھی عرب کے لوگ منحوس اور نامبارک سمجھتے تھے، اس مہینے میں کوئی تجارت شروع نہیں کرتے اور نہ ہی شادی بیاہ کرتے، وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس مہینے میں تجارت شروع کرنے سے نقصان ہوگا، شادی ناکام ہوگی ، جو سفر ہو گا وہ نامراد ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باطل تصورات اور جاہلانہ رسم و رواج اور اوہام و خرافات کا خاتمہ کیا اور فرمایا کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لا عدوی، ولا طیرة، ولا ھا مة ولا صفر۔۔
اہل عرب یہ خیال کرتے تھے کہ عرب کے صحرا ء میں کچھ شیاطین ہوتے ہیں، جو رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور راہ گیروں کو راستہ بھٹکانے کا کام کرتے ہیں، عرب ان کو غول کہا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تصور کی بھی نفی فرمائی۔
اہل عرب شوال کے مہینہ کو بھی نامبارک اور شادی کے لیے ناموزوں تصور کرتے تھے۔
رسول ﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ سے شوال میں نکاح فرمایا اور شوال ہی میں رخصتی بھی ہوئی، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اس خام خیالی کی تردید کرتے ہوئے فرماتی تھیں کہ میرے نکاح سے زیادہ با برکت نکاح کون سا ہوسکتا ہے؟
اسلام نے اپنے ماننے والوں کے عقیدئہ توحید کو اتنا راسخ کردیا کہ وہ اس قسم کے اوہام و خرافات کو اپنے سے قریب بھی پھٹکنے دیتے تھے، چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت زنیرہ ایک صحابیہ تھیں۔ ایمان لائیں، ان پر اتنا ظلم ہوا کہ ان کی بصارت و بینائی جاتی رہی، کچھ لوگوں نے کہا کہ بتوں اور دیویوں کو برا بھلا کہنے کا یہ نتیجہ اور انجام ہے، جس کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوگئی، لیکن حضرت زنیرہ رضی اللہ عنھا کے ایمان و عقیدہ اور فکر میں ذرا بھی لغزش اور تزلزل نہیں آیا، کیونکہ ان کی صرف بصارت اللہ نے لے لی تھی، وہ ایمانی اور روحانی بصیرت سے محروم نہیں ہوئی تھی۔ حضرت زنیرہ کہتی ہیں کہ یہ سب اللہ کے فیصلے اور اس کے حکم سے ہے۔ رسول ﷺ ان کی استقامت اور ثابت قدمی سے خوش ہوئے اور ان کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ پھر ان کی بصارت و بینائی لوٹ آئی۔ (عصر حاضر کے سماجی مسائل، صفحہ ۲۲/۲۱)
البدایہ و النھایہ میں علامہ ابن کثیر رح نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مصر کا علاقہ فتح ہوا، مصر کی معیشت کا مدار دریائے نیل پر تھا، یہاں معمول تھا کہ یہ دریا جب خشک ہوجاتا ہے، تو ایک کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر دریا کے بیچ میں ڈال دیا جاتا ، دریا کی بلا خیز موجیں اٹھتیں اور اسے موت کی نیند سلانے کے بعد جاری ہوجاتیں، جب مصر ، خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں آنے کے بعد دریا خشک ہوا اور گورنر مصر حضرت عمر ابن عاص رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے اولا تو انکار کیا، پھر لوگوں کے اصرار پر مشورہ کے لیے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے جواب کے ساتھ ایک اور تحریر دریائے نیل کے نام لکھا اور ہدایت دی کہ اس تحریر کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اس تحریر میں دریا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ تو جاری ہوجائے اور اگر اللہ کے حکم سے جاری نہیں ہے تو ہمیں تیری ضرورت نہیں، حسب ہدایت یہ تحریر دریا میں ڈال دی گئی اور دریائے نیل اس شان سے جاری ہوا کہ دوسرے دن جو ہفتہ کا دن تھا سولہ ہاتھ پانی ہوگیا۔۔( البدایہ و النہایہ ۷/ ۱۰۰)
اس واقعہ سے ہم اور آپ سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کرام کا ایمان و عقیدہ کتنا مضبوط و مستحکم تھا، پیارے آقا ﷺ نے کتنی زبردست ان کی تربیت کی تھی، ان کی تحریر و تقریر اور زبان میں کتنی تاثیر تھی۔ لیکن افسوس کہ اس ملک میں بردارن وطن کے ساتھ رہتے رہتے،ہم بہت سی چیزوں میں یہاں تک کہ فکر و عقیدہ میں میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، ان ہی میں سے ایک اوہام پرستی کا مزاج ہے۔ آج مسلمان بھی توہمات و خرافات میں ڈوب گئے ہیں، بدفالی اور نیک شگونی کا باطل طریقہ ان کے یہاں مروج ہے، بہت سے ہندوانہ عقائد سے بعض علاقے مسلمان بری طرح متاثر ہیں، حد تو یہ ہے کہ مسلمان بھی عقد نکاح کے وقت اور شادی کے جوڑوں کے سلسلہ میں عاملین اور تانترک سے مشورہ لینے لگے ہیں، تقریبات میں ناریل پھوڑتے ہیں، پہلے گاہک کو کبھی ادھار نہیں دیتے، صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں الو کے اڑنے سے بدفالی لیتے ہیں، بعض علاقہ میں واستو کا عقیدہ بھی جاتا ہے کہ گھر بنانے وقت پنڈت اور اوجھا سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ بلی راستہ کاٹ دے تو سفر کو بہتر نہیں سمجھا جاتا وغیرہ وغیرہ جس غلامی سے اسلام نے آزاد کرایا پھر اسی طرح کی غلامی میں مسلمان واپس جارہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اور ضعف عقیدہ کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔۔
اسلام میں نحوست و بدفالی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے  | دینی مسائل
اسلام کی نگاہ میں کوئی دن، کوئی لمحہ منحوس نہیں ہے اور نہ ہی کسی جانور اور مہینے میں نحوست ہے۔ آپ نے بعض مہینوں اور راتوں اور گھڑیوں کو مبارک ضرور قرار دیا ۔ لیکن کوئی گھڑی نامبارک نہیں ہے۔ (مستفاد عصر حاضر کے سماجی مسائل از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، صفحہ ۲۲- ۲۴) ۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ قدیم عربوں ہی کی طرح آج دنیا میں سب سے زیادہ توہم پرست قوم ہندو قوم ہے، ان کے وہم و گمان، توہم پرستی اور تشکیکی ذہنیت میں ادنی شک و شبہ نہیں، برادران وطن کے توہم کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنے سایہ سے بھی ڈر لگتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ضعف عقیدہ اور توحید سے دوری اور بعد ہے۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ایمان جتنا اور جس قدر مضبوط ہوگا، اتنا ہی خوف اور وہم و توہم اور تشکیک سے آدمی دور ہوگا اور ایمان و عقیدہ جتنا کمزور ہوگا وہ اوہام و خرافات سے قریب ہوگا۔۔۔ ان کی تعلیم، ڈگریاں اور اسناد بھی ان کو تشکیک، توہم اور اور اوہام و خرافات سے نہیں نکال سکیں گی، کیونکہ ڈگریاں اور اسناد شعور و آگہی کی علامت تو ہے، ضمانت نہیں۔۔
ہندستانی باشندوں کے اوہام و خرافات اور توہم پرستی کی داستانیں اس قدر عجیب و غریب ہیں کہ ان کو سن کو انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے اور انسانی عقل و شعور کی اس گرواٹ اور سطحیت پر حیران رہ جاتا ہے، ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور اب بھی ایسی خبریں برابر آتی رہتی ہیں۔۔ یہ الگ بات ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا اس طرح کی خبروں کو چھپاتی رہتی ہیں، تاکہ کہیں اس قوم کی بے شعوری کا پردہ فاش نہ ہو جائے اور ان کی اس توہم پرستی پر لوگ ہنسنے نہ لگیں اور محو حیرت میں نہ پڑ جائیں۔۔۔ کچھ دنوں پہلے اپنے ملک میں واقعہ پیش آیا ہے جس کو سن کر آپ حیرت میں پڑ جائیں گے بلکہ انگشت بدنداں اور حیرت بداماں ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
پروشوتم نائیڈو' گورنمنٹ ڈگری کالج سے کیمسٹری کے معاون پروفیسر ہیں، ان کی اہلیہ پدمجا نے ایم ایس سی ریاضی میں سنہرا تمغہ حاصل کیا ہے وہ شہر کی ایک معروف دانش گاہ میں ملازمت کرتی ہے، دو تعلیم یافتہ بیٹیاں بھی تھیں، الیکھیا جو سینٹرل فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ میں نوکری کرتی تھی دوسری بیٹی اے آر رحمن میوزک انسٹی ٹیوٹ میں تربیت حاصل کررہی تھی۔ اسی گھرانے کے متعلق پڑوسیوں نے پولس کو خبر دی اور جب پولس نے آکر احوال کا جائزہ لیا تو منظر دل دہلانے والا تھا، دونوں بیٹیوں کی خون میں لت پت لاشیں پڑی ہوی تھیں، ترشول اور ڈمبیلس سے بار بار حملے کیے گئے تھے، پولس مزید تحقیقات میں جٹ گئیں تبھی والدین نمودار ہوے اور انہوں نے پولس کو مطلع کیا کہ ان دیکھی مخلوقات کی رہنمائی نے انہیں اپنی بیٹیوں کے قتل کی رہنمائی کی اور ان کے پاس شکتیاں ہیں جس کے زور پر بیٹیاں دوبارہ زندہ ہوجائے گی، توہم پرست والدین کو پولس نے گرفتار کرلیا ہے، والدین کے ساتھ ساتھ دونوں بیٹیاں بھی مذہبی عصبیت کے ساتھ پروان چڑھ رہی تھی بالخصوص الیکھیا کے اسلام مخالف مراسلے سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی روح کو سکون اسی وقت ملتا ہے جب اس کا دل ایمان کی دولت سے مالا مال ہو، وہ راہِ حق کا پیروکار ہو اور اس دولت کے بغیر وہ ہر چیز سمیٹ کر بھی محروم رہتا ہے، سکون سے کوسوں دور، بےچین اور مضطرب، کسی کروٹ اسی چین نصیب نہیں ہوتا، دنیا بھی ہاتھ سے جاتی ہے اور آخرت بھی اور یہ بہت بڑا خسارہ ہے، قابلِ مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اندھیروں میں زندگی گزارنے والوں کو روشنی کی طرف بلاتے ہیں۔
اس واقعہ سے ہم اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایمان و یقین کی دولت سے محرومی کے نتیجہ میں پڑھا لکھا طبقہ بھی کس طرح بے سکونی و بے قلی اور بے قراری کی زندگی گزار رہا ہے اور معاشرہ کس کربناک کیفیت اور حالت میں پہنچ چکا ہے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ اس سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کہ لئے ہم مسیحا بنیں اور انہیں ایمان و اسلام کی شکل میں آب حیات دے کر ان کو اندھیرے سے روشنی کی طرف اور بے چینی و بے قراری سے سکون و راحت کی طرف لائیں کیا اب یہ وقت بالکل قریب نہیں آگیا ہے کہ ہم انہیں تباہی اور بربادی سے انہیں بچائیں اور اپنی مفوضہ دعوتی ذمہ داری کو پوری کرکے خدا کے حضور پکڑ اور مواخذہ سے بچ جائیں ۔۔۔۔
آج داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ ہمارے اندر کیوں پیدا نہیں ہو رہی ہے،؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا میری اور میری امت کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو آگ روشن ہے پروانے اور جھیگڑ اس آگ میں آ آ کر گرتے ہیں، میں تم لوگوں کی کمر پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں مگر تم لوگ آگ میں کود رہے ہو۔۔۔ مسلم شریف ۔۔۔۔
شائع کردہ/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، دگھی، گڈا، جھارکھنڈ

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ