Ticker

6/recent/ticker-posts

مثالی مہتمم، ماہرنفسیات مربی مولانامحب اللہ صاحب لاریؒ کا دور اہتمام

مثالی مہتمم ماہرنفسیات مربی مولانامحب اللہ صاحب لاریؒ کا دور اہتمام مشاہدات و واقعات کی روشنی میں


ولادت۱۹۰۵ء وفات۱۹۹۳ء
زمانۂ اہتمام: 1969 - 1993ء
آفتاب عالم ندوی(جھارکھنڈ)
موبائل نمبر: 8002300339
مہتمم، پرنسپل یعنی ہروہ ذمہ دار ومنتظم جس کی براہ راست نگرانی اورماتحتی میں لوگ کام کرتے ہیں، طلبہ تعلیمی زندگی گزارتے اوراساتذہ تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں، کم ایساہوتاہے ، بہت کم کہ ایسے عہدداراورمنصب دارسے لوگ خوش رہتے ہوں، ان ذمہ داروں میں ایسے خوش نصیب ڈھونڈھے نہیں ملیں گے جن سے ماتحت والوں کوشکایت نہ ہو، انہیں حق تلفی کااحساس نہ ہو، جانب داری کاالزام نہ لگارہے ہوں؛ مگر کوئی اصول اورکوئی کلیہ ایسا نہیں پایاجاتاجس میں استثناء نہ ہو، ہرفن کی نصابی کتاب میں پہلے ایک قاعدہ بتایاجاتاہے، مثالوں سے اسے ذہن نشین کرایاجاتاہے، پھربتایاجاتاہے کہ اس قاعدہ سے فلاں فلاں چیزیں خارج اورمستثنیٰ ہیں، یہ قاعدہ ان پرنافذ نہیں ہوگا، اسی طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق مہتمم جناب مولانامحب اللہ لاری صاحب ندوی کی ذات ان معدودے چندمہتممین میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے جن سے اخیرتک ان کے ماتحت والے خوش رہے، حسب ضرورت تادیبی کارروائیوں اورسخت فیصلوں کے باوجود ان سے ناراضگی نہیں رہی، ممدوح بحیثیت مہتمم ومنتظم بڑے خوش نصیب تھے۔

ندوۃ العلماء کوئی چھوٹا یا متوسط درجہ کا ادارہ نہیں ہے

ندوۃ العلماء کوئی چھوٹایامتوسط درجہ کاادارہ نہیں ہے، وہ دینی واسلامی علوم وفنون کاایک عالمی ادارہ ہے، جہاں ملک وبیرون ملک کے طلبہ اپنی علمی ، ادبی اوردینی تشنگی بجھاتے ہیں اوراعلی دینی علوم کے سرچشموں سے سیراب ہوتے ہیں، ان میں پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے بھی ہوتے ہیں اوراہل ثروت کے بچے بھی، کالج سے پڑھ کرآنے والوں کی تعدادبھی معتدبہ رہتی ہے، انڈونیشیا، ملیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، بنگلہ دیش اورافریقہ ویوروپ کے بھی طلبہ ہوتے ہیں اوریہ طلبہ مختلف زبانوں، متنوع ثقافتوں اورمختلف مسلکوں کے حامل ہوتے ہیں، ایسے طلبہ کی نگرانی، ان کی تربیت، ان کے معاملات کو نپٹانا، جھگڑوں میں حق وانصاف سے فیصلے کرنا، انہیں تعلیم ومطالعہ میں مشغـول رکھنا، ندوہ کے علمی، تحقیقی اوردینی ماحول سے مستفید ہونے کی ترغیب دینا، شوق بیدارکرناکتنامشکل ، کتنامحنت طلب ہے اورکس قدردل سوزی وجگرکاوی کا کام ہے، کچھ وہی لوگ اس کااندازہ کرسکتے ہیں، جنہیں اس طرح کے کاموں کاچھوٹے ہی پیمانہ پرسہی کچھ تجربہ ہو، مولانامحب اللہ صاحب لاری کاچوبیس سالہ دوراہتمام گواہ ہے کہ وہ اہتمام وانصرام کے مشکل ترین کام کوخلوص، احساس ذمہ داری، جراء ت وبے باکی اورانصاف پروری وراست گوئی سے بحسن وخوبی انجام دینے میں کامیاب رہے، شریر اورنہ پڑھنے والے طلبہ جن کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوتی وہ بھی ان سے ناخوش نہیں ہوتے۔

مولانامحب اللہ صاحب لاری ندوۃ العلماء کے سنہرے دور کے فارغین

مولانامحب اللہ صاحب لاری ندوۃ العلماء کے سنہرے دورکے فارغین میں تھے، ذمہ داروں اوراساتذہ میں خلکان الہندمولاناعبدالحئی حسنی، علامہ سیدسلیمان ندوی، مولاناحیدرحسن خاں صاحب ٹونکی اورمولاناحفیظ اللہ صاحب جیسے جبل علم وفضل کازمانہ تھا، رفقاء میں مفکراسلام مولاناسیدابوالحسن علی ندوی، مولاناعبدالسلام قدوائی، مولاناعمران خان بھوپالی، مولاناناظم ندوی، مولاناعبدالقدوس ہاشمی، رئیس احمدجعفری اورمولانامسعودعالم ندوی جیسے عباقرۂ علم وادب شامل تھے، یہ وہ نام ہیں، جنھیں بجاطورپرفخرندوہ بل کہ فخرملت کہاجاسکتاہے، اس زمانہ میں ابنائے ندوہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ علمی، وتحقیقی ذوق کے ساتھ ادب اورتاریخ سے انھیں گہری دلچسپی ہوتی تھی، جن حضرات کاذکرکیاگیاہے، وہ سب کے سب اہل قلم صاحب تصنیف ہیں، یہ ذوق مولانامحب اللہ صاحب میں بھی تھا، انھوں نے کئی علمی کتابوں کوعربی سے اردومیں منتقل کیا، کانپورکے زمانہ ٔقیام میں ’’ترجمان‘‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالا، کچھ دنوں تک اس عہد کے معروف پرچے’’ندائے ملت‘‘سے بھی وابستہ رہے، میری طرح بہت سارے ندویوں کے لئے یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے، ندوہ میں چوبیس سالہ دوراہتمام میں شایدانہوں نے کبھی کچھ نہیں لکھا، حسن البناء شہیدکے بارے میں کہاجاتاہے کہ ’’صنف الرجال‘‘، کتابیں توانہوں نے تصنیف نہیں کیں؛ البتہ رجال کاربہت تیارکئے، اسی طرح موصوف نے اپنی ساری توانائی طلبہ کی تعلیم وتربیت اورندوہ کے ماحول کوتعلیم وتربیت کے لئے سازگاربنائے رکھنے پر صرف کی۔

ندوۃ العلماء ایک عالمی ادارہ ہے

ندوۃ العلماء ایک عالمی ادارہ ہے، اس کے عالی مقام ناظم مولاناعلی میاں ندویؒ کی وجہ سے پوری دنیا، خصوصاًعالم عرب میں اس کی مقبولیت اور ہردل عزیزی نے ایک نیارکارڈ بنایا، اس کے مہتمم کی حیثیت عرفی انتہائی مؤقراوربلند ہے، دوسرے اداروں میں مہتمم کے بغیرکوئی پروگرام،کوئی افتتاح بخاری وختم بخاری اورکسی الوداعیہ اوراستقبالیہ کاتصورنہیں کیاجاسکتا، چوبیس سالہ دوراہتمام میں جن ندویوں کوندوہ میں تعلیم حاصل کرنے کاموقع ملا وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کے کسی پروگرام میں وہ کبھی شریک نہیں ہوئے؛ حالاں کہ تمام پروگراموں کی کامیابی کے پیچھے ان کی فکرمندی بھی کارفرماہوتی، ، حقیقت یہ ہے کہ انہیں ندوۃ العلماء جیسے ادارہ کی ذمہ داریوں کاپوراشعوربھی تھا اورانہیں نبھانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کاربھی لاتے تھے۔

مولاناعلی میاں ندویؒ جب ناظم منتخب ہوئے

طلبہ کوذوق وشوق اوریکسوئی سے طلب علم میں مشغول کرنا، غیردرسی صلاحیتوں کوجلابخشنے والی سرگرمیوں سے دلچسپی ، دینی فکراورفراغت کے بعد سماج وملک کی خدمت کاجذبہ پیداکرنامہتمم وذمہ دار کے بنیادی فرائض میں ہے، ایساکرنے میں اگرکوئی مہتمم کامیاب ہوجاتاہے تویہ اس بات کابین کاثبوت ہے کہ یہ مخلص بھی ہے ، اسے اپنی ذمہ داریوں کامکمل ادراک بھی ہے اورذمہ داریوں کواداکرنے کاہنربھی وہ جانتاہے، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مولانامحب اللہ صاحب مولاناعلی میاں ندویؒ کی دعوت پرندوہ آئے تھے، ندوہ میں وہ دونوں کلاس فیلوتھے، دونوں ایک دوسرے سے خوب واقف تھے ، حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ جب ناظم منتخب ہوئے تووہ ندوہ کی ہمہ جہت ترقی کے لئے ہمہ تن سرگرم ہوگئے اوراپنی مددکے لئے ایسے لوگوں کوذمہ داریاں دیں جوان کے خاکہ میں رنگ بھرنے کے لئے موزوں تھے، ندوہ کی فکران کے دل ودماغ میں رچی بسی ہوئی تھی، اللہ جب کسی سے بڑاکام لیناچاہتاہے توضروری اسباب وسائل سے بھی اسے نوازتاہے،مخلصین اورجاں نثاررفقاء مل جاتے ہیں، انتظام وانصرام کے لئے مولانامحب اللہ لاری ، مولاسیدمحمدرابع صاحب ندوی دامت برکاتہم، مولامعین اللہ صاحب ندوی،ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی پھلواروی، مفتی ظہورصاحب ندوی ،مولانا سعیدالاعظمی صاحب ندوی، مولانا محمد الحسنی اورمولاناسیدواضح رشیدحسنی ندوی جیسے مخلصین پروانوں کی طرح جمع ہوگئے ، ان لوگوں میں بڑی فکری ہم آہنگی تھی، وہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح ندوہ کے کاموں کوانجام دیتے تھے، ان لوگوں نے حضرت مولانارحمۃ اللہ کودعوت اسلامی اورفکراسلامی کی ترویج واشاعت،تصنیف و تالیف اورملک وملت کی خدمت کے لئے فارغ کردیاتھا۔
مولانامحب اللہ صاحب لاریؒ اہتمام کی ذمہ داریوں کوامانت سمجھتے تھے، اس میں کسی طرح کی کوتاہی کوخیانت تصورکرتے، ان کی تمام صلاحیتیں اورذہنی وجسمانی طاقت ندوہ اورطلبہ واساتذہ کے لئے وقف تھی، منصب اہتمام کوشہرت طلبی وخودنمائی کاذریعہ کیابناتے، وہ خودنمائی کے مرض سے پاک تھے، ان کی زندگی کے یہ پہلواتنے روشن اورتابناک تھے کہ ہرآدمی اسے محسوس ہی نہیں بل کہ مشاہدہ کرسکتاتھا۔
ہمارے مہتمم صاحب کی بڑی خصوصیت جراء ت وبے باکی اورعدل پروری اورانصاف پرستی تھی، طلبہ واساتذہ کے معاملات میں ان کارویہ انصاف پرمبنی ہوتا، ضابطہ اورخیرخواہی کے تقاضے کے مطابق فیصلہ لیتے، بعض سینئراساتذہ بعض ضابطوں کی پابندی کواپنی شان کے خلاف سمجھتے؛ لیکن انھوں نے اس کی انھیں چھوٹ نہیں دی۔
مولانامحب اللہ صاحب نے ندوہ سے فراغت کے بعدعلی گڑھ میں داخلہ لیااوروہاں سے گریجویشن کیا، اپنے طرز زندگی ، رکھ رکھاؤ اورپہناوے اوڑھاوے میں ندوہ اورعلی گڑھ دونوں ادراوں کی خصوصیات کے وہ حامل تھے، شروانی کی ایسی پابندی کہ شایدہی کسی نے شروانی کے بغیرکبھی انھیں دیکھاہو، اسی طرح چاہے جتنی سردی ہو، کان نہیں چھپاتے، شروانی پرسردی میں بھی کبھی گرم ٹوپی استعمال نہیں کرتے، آج بھی یہ منظرآنکھوں کے سامنے ہے، سردی کاموسم ہے، دفتراہتمام کے سامنے دارالعلوم کی بلڈنگ کے نیچے آرام کرسی پردراز ٹائمس آف انڈیادیکھ رہے ہیں۔
موصوف وقتاًفوقتاًفجرکے وقت کسی نگراں کوساتھ لے کرہاسٹل کادورہ کرتے تھے، اوریہ بات میں اس وقت کی کررہاہوں ، جب وہ اسی کے پیٹھے میں تھے، احساس ذمہ داری انھیں مجبورکرتی کہ اس ضعف پیری میں ایک ایک کمرہ کودیکھیں کہ کوئی جماعت چھوڑکرسوتونہیں رہاہے، دوسری منزل کا بھی چکر لگاتے، اسی طرح تعلیمی اوقات میں کینٹین بھی کبھی کبھی تشریف لے جاتے، طلبہ چائے، پوڑی، جلیبی، بندمکھن چھوڑکرافتاں وخیزاں کینٹین سے بھاگ نکلتے، ایسے موقع پر کینٹین کانقصان ہوجاتا، بہت سے طلبہ بعد میں پے مینٹ نہیں کرتے۔
لاری صاحب کا دور اہتمام کئی پہلوؤں سے ندوہ کا ایک مثالی اور شاندار دور رہا ہے، کسی بھی تعلیمی ادارہ کی کامیابی اور اس کی رفتار ترقی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی ادارہ کے فارغین ہوتے ہیں ، اگر کسی پرنسپل،کسی ناظم اور کسی معتمد تعلیم کی کارکردگی کو دیکھنا ہو تو اسکے عہد کے آؤٹ پٹ کو دیکھ لیا جائیے، کیسے لوگ فارغ ہوئے اور وہ کیا خدمات انجام دے رہے ہیں،بحث و تحقیق، تصنیف و تالیف اور دعوت و اصلاح کے میدان میں ان کی کیاکارکردگی ہے،ملک و ملت کو ان سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ، اس پہلو سے جب لاری صاحب کے زمانۂ اہتمام کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ندوہ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کاسر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے، اس زمانہ کے فضلاء میں اچھے مدرسین ،تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والوں اور علم و تحقیق میں مادر علمی کا نام روشن کرنے والوں کی فوج نظر آتی ہے،مولانا علی احمد ندوی کو اصول فقہ پر کام کی وجہ سے فیصل ایوارڈ دیا گیا،ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ندوی اپنی علمی و تحقیقی اور دعوتی و تعلیمی خدمات کی وجہ سے پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اس زمانہ کے صرف ممتاز فارغین کا بھی یہاں ذکر نہیں کیا جا سکتا کہ صرف اس کے لئے بھی کئی صفحے درکار ہیں،اس دور میں طلبہ کا ادب کے ساتھ علوم شرعیہ کی طرف رجحان بڑھا اور شرعیہ کی ہر شاخ کیلئے ہر سال اچھے مدرسین، فقہ و فتاوی سے دلچسپی رکھنے والے اور فقہ اسلامی کے موضوعات پرلکھنے والے معتدد بہ تعداد میں فارغ ہوئے، اس دور کے فارغین میں کثرت سے ایسے لوگ ہوئے جنہوں نے بڑی تعداد میں ملک و بیرون ملک عصری و دینی تعلیم کے لئے ادارے قائم کئے، متعدد ادارے آج مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، اچھی تعلیم و تربیت، حسن انتظام و انصرام اور انفرااسٹریکچر میں انکی مثال دی جاتی ہے۔
راقم ندوہ میں۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۴ء تک رہا، پہلی مرتبہ داخلہ ہی کے سلسلہ میں دفتراہتمام میں ان سے ملاقات ہوئی، ہوایہ کہ داخلہ کے لئے میں نے فارم پرکرکے بھیجا؛ لیکن نامنظوری کاخط آگیا، میں بہت پریشان ہواکہ اب کیاکیاجائے؟ ایک ترکیب ذہن میں آئی، مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ کے مشہور نابیناقاری، قاری الطاف صاحب مرحوم جن سے میں نے فرقانیہ میں روایت حفص کاکورس کیاتھا، وہ ندوہ کے درجات حفظ کے ممتحن تھے، مجھے ایک دوباراپنے ساتھ ندوہ بھی لے جاچکے تھے، میں گھرسے لکھنؤپہنچا اورقاری صاحب سے بتایاکہ داخلہ نہیں ہوا، فرمایا: چلو، ندوہ چلتے ہیں، لاٹھی اٹھائی اورمجھے ساتھ لے کرندوہ پہنچے، دفتراہتمام میں حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات کی اورمیرے داخلہ کی بات کی، مہتمم صاحب نے کچھ نہیں پوچھا کہ یہ کہاں کے ہیں؟ اورنہ یہ فرمایاکہ ان سے کہئے کہ ایک سال کے لئے کہیں اورداخلہ لے لیں اور آئندہ سال ندوہ آجائیں، فارم دئے جانے کاحکم صادرفرمایااورٹیسٹ کے بعدثانویہ رابعہ میں میرا داخلہ ہوگیا، ایک سال شہرمیں قیام رہا، دوسرے سال ہاسٹل میں جگہ بھی مل گئی، ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۹ء تک طالب علم کی حیثیت سے ، اس کے بعد ۲۰۰۴ء تک ملازم ومدرس کی حیثیت سے ندوہ کے پاکیزہ علمی ماحول میں اس ناچیز کورہنے کی سعادت حاصل رہی۔
۲۶؍جنوری کے موقع پرجمعیۃ الطلبہ کے زیرانتظام ندوہ کاتمثیلی مشاعرہ بڑازوردار ہوتاتھا، طلبہ سراپاشوق بنے اس کاانتظارکرتے، اسٹوڈینس یونین کے ذمہ داروں وارکان کی کوشش ہوتی کہ مشاعرہ ایساہو کہ گزشتہ سالوں کاریکارڈ ٹوٹ جائے، خاص طورپرجب تک محترم زبیرصاحب پٹنوی اورمحترم خورشیدانوراعظمی صاحب رہے، یہ مشاعرہ مثالی رہا، شعراء کی نمائندہ غزلوں، نظموں کاانتخاب قابل تحسین اورطرز اوراندازپیش کش بڑادل کش ہوتا۔
۱۹۸۶ء کاسال عا لمیت سے میری فراغت کاسال ہے، اس سال طلبہ نے چاہاکہ اس بارتمثیلی مشاعرہ کی بجائے تحریک ندوہ کوتمثیلاً پیش کیاجائے، دیکھتے دیکھتے یہ خیال طلبہ کے دل کی آواز بن گیا، زوروشور سے تیاریاں ہونے لگیں، تحریک ندوہ کی ابتدائی تاریخ کاایک ایک صفحہ پلٹا جانے لگا، وہ پس منظر، جس میں تحریک برپاہوئی، فیض عام کانپورکاوہ جلسہ جس میں اس تحریک کی بنیادپڑی، جس میں استاذ الاساتذہ مولانالطف اللہ علی گڑھی،مولانامحمدعلی مونگیری، شیخ الہندمولانا محمودحسن دیوبندی، مولاناخلیل احمدسہارنپوری، مولااشرف علی تھانوی، مولاناشاہ سلیمان پھلواروی، مولاناثناء اللہ امرتسری جیسے چاندستاروں کی شرکت سے جلسہ کہکشاں کامنظرپیش کررہاتھا، پہلے مولانااحمدرضاخاں صاحب بریلوی کی تحریک میں شرکت، پھراس سے ناراضگی اورمخالفت میں زبانی وقلمی جنگ، پرانے حریف اورنبردآزماعلماء کاتمام اختلافات کوبھلاکرگلے ملنا، عمامہ اورٹائی کاکاندھے سے کاندھاملاکرملت کی فلاح وبہبود کے لئے اٹھ کھڑاہونا،یہ اوراس طرح کے تمام تاریخی واقعات کو طلبہ نے اس انداز میں پیش کیاکہ ناظرین بیسویں صدی کے اوائل میں پہنچ گئے۔لیکن پروگرام کے درمیان ذمہ داروں کوخبرملی کہ یہ تومکمل ڈرامہ ہے ، کسی بھی دینی ادارہ کے لئے اس طرح کاپروگرام قطعاًمناسب نہیں، لہٰذا فوراً اسے روک دیاگیا، عباسیہ ہال میں یہ پروگرام ہورہاتھا، ہال کھچاکھچ بھراہواتھا، باہربھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، طلبہ کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، غصہ، اشتعال؛ لیکن حالات قابو میں رہے، بعد میں ذمہ داروں نے کانٹ چھانٹ کراوربہت سی شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دی، اس بارپروگرام جمالیہ ہال میں ہوا؛ لیکن اس کاآخری سین باقی رہ گیا، اوروہ یہ کہ انتظامیہ نے فیصلہ کیاکہ جوطلبہ اس میں پیش پیش تھے اورآخری درجہ میں ہیں، ان کااخراج کیاجائے، اس ناکردہ گناہ کی سزامیں میرابھی اخراج ہوگیا، میں قطعاً پیش پیش نہیں تھا، اس کے باوجود مہتمم صاحب کے سلسلہ میں میرادل صاف رہا، دراصل انھیں اسی طرح رپورٹ دی گئی تھی، ایک سال بعد پھرمیرافضیلت میں داخلہ ہوگیا اوراسی سال مجھے جمعیۃ الاصلاح کاناظم بھی منتخب کیاگیا، اس کی وجہ سے مہتمم صاحب سے باربارملناہوتا، جمعیۃ الاصلاح کے پروگراموں، دارالکتب کے لئے کتابوں کی خریداری اورمحاضرات ولیکچرز کے لئے اہل علم وفضل کو بلوانے کے لئے منظوری حاصل کرنے کے مقصدسے حاضر ہوناپڑتا، ہمیشہ انھوں نے ہمت افزائی کی اورمنظوری دینے میں ٹالنے والارویہ کبھی نہیں اپنایا، پیسہ کی نکاسی میں کبھی دشواری نہیں ہوئی۔
ان کاخلوص شک سے بالاتر، فہم وفراست حیرت انگیزاور ادارہ اورطلبہ کے لئے ہم دردی وفکرمندی قابل تقلید، شریراورنہ پڑھنے والے طلبہ کے ساتھ بھی ایسی شفقت ومحبت کامعاملہ کرتے کہ وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے، ان کی معاملہ فہمی کی وجہ سے نہ جانے کتنے طلبہ کامستقبل بربادہونے سے بچ گیا، اس میں شک نہیں کہ انھوں نے اخراج بھی کئے، تادیبی کارروئیاں بھی کیں؛ لیکن جذبۂ خیرخواہی میں اور جب کوئی متبادل نہ بچتاتاکہ نظم وضبط برقراررہے اورماحول خراب نہ ہو۔
دنیاخاص ٹوپی اورمخصوص نششت وبرخواست کوبزرگی سمجھتی ہے، صرف اوراد وظائف اورکچھ نوافل کی پابندی کو اللہ والوں کی پہچان سمجھاجاتاہے، جب کہ صحیح معنوں میں بزرگ وہ ہے ، جو اللہ کے حقوق کے ساتھ انفرادی واجتماعی فرائض اورذمہ داریوں کوبحسن وخوبی انجام دیتے ہوئے زندگی گزارے، خداکے بندوں کے ساتھ اس کے معاملات درست ہوں، بندوں کے حقوق کی ادائے گی میں کوتاہی نہ کرے۔
آفتاب عالم ندوی Aaftab Alam Nadwi
آفتاب عالم ندوی
مولانامحب اللہ صاحب لاری ایک معتدل ومتوازن شخصیت کے مالک تھے، افراط وتفریط سے ہرمعاملہ میں بچتے،زندگی باوقار اور دماغ روشن تھا، قناعت وسادگی، وضعداری اورنستعلیقیت ان کی شخصیت کے حسن کودوبالاکرتی تھی، انھیں ایک آئیڈیل پرنسپل اور مشفق مربی کی حیثیت سے ندوہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، آخری لمحہ تک، جب تک جان میں جان رہی ندوہ کی خدمت کی، اللہ انھیں اس کابہترین صلہ عطافرمائے۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ