Ticker

6/recent/ticker-posts

ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے Warna Gulshan Mein Ilaza E Tangi E Daman Bhi Hain

ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے

اسلام ایک سچا اور نکھرا ہوا مذہب ہے جس نے عورت کو مساوات کے حقوق دئیے۔ اسلام ایک جامع نظام حیات ہے ۔ اہل قرآن وہ مقدس کتاب ہے جس کی تلاش و جستجو میں آج مغربی دوشیزائیں سرگرداں ہیں۔
جب کسی خاندان میں فرزند کا تولد ہوتا ہے تو گھ کے چاروں طرف خوشیاں پھیل جاتی ہیں۔ اعزہ و اقارب میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ برعکس اس کے اگر لڑکی پیدا ہو تو بعض گھرانوں میں خاندان کے بزرگوں کے چہروں پر پژمردگی آجاتی ہے۔ آخر یہ امتیاز کیوں؟ ہمیں ان عظیم ماؤں کو یاد کرنی چاہیے جنہوں نے سر سید احمد خاں، خواجہ الطاف حسین حالی، اشفاق اﷲ خاں، مولانا محمد علی جوہر، شبلی نعمانی، مولانا شوکت علی اور نہ جانے کتنی عظیم شخصیتوں کو جنم دیا اور انہی محبان وطن اور جانثارِان وطن نے وطن عزیز کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی اور سر زمین ہند کو اپنے لہو سے سینچا۔ جن کی یاد بھارت واسیوں کے دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ پیوست رہے گی۔
شہیدوں کے مزاروں پر لگیں گے ہر برس میلے
وطن پر مٹنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا

ہمارے معاشرے میں لڑکیاں تعلیمی ، سماجی، معاشرتی مسائل سے دوچار کیوں ہیں

آج ہمارے معاشرے میں لڑکیاں تعلیمی ، سماجی، معاشرتی مسائل سے دوچار کیوں ہیں۔آئیے اس کا جائزہ لیں۔ دراصل یہاں بات ہو رہی ہے غریب اور متوسط گھرانے کی۔ اس طبقے میں والدین لڑکوں کو لڑکیوں کی بہ نسبت زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ لڑکوں کی پرورش اور پرداخت الگ طریقے سے کی جاتی ہے۔ اکثر والدین لڑکیوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس طبقے میں والدین بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں نہیں ہوتے جن کی خاطر خواہ وجوہات کم عمری میں شادی، معاشی بدحالی ، مخلوط تعلیمی ادارے اور پردہ ہیں۔ لیکن یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پردہ اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ جہاں تک کم عمری کی شادی کا تعلق ہے تو طبی نقطۂ نظر سے کم عمری کی شادی نہ صرف ایک معصوم بچی کا استحصال ہوہے بلکہ ایک نئی نسل کا بھی استحصال ہے کیوں کہ بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کا زبردست رول ہے۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو کم عمری کی شادی سے احتراز کیا جائے۔

بچیاں فطری طورپر زیادہ حساس ہوتی ہیں

والدین کی کوتاہ نظری، قدامت پسندی بھی بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں آہنی دیوار کی حیثیت رکھتی ہے۔ بچیاں فطری طورپر زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ ان میں بھی خود شناسی ، خود اعتمادی کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشات جنم لیتی ہیں اور خیالات کا طوفان اٹھتا ہے۔ انہیں بھی کتابوں سے والہانہ محبت ہوتی ہے۔ ذہانت اگر محلوں میں ہوتی ہے تو کٹیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر لڑکوں میں ذہانت ہوتی ہے تو لڑکیاں بھی اس سے کم نہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی ماحول میں پرورش پاتے ہیں لیکن پھر بھی ا ن کی شخصیت مختلف ہوتی ہے۔۔
پرواز دونوں کی ہے اسی ایک فضا میں
شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

والدین لڑکے اور لڑکیوں میں امتیازنہ برتیں

والدین لڑکے اور لڑکیوں میں امتیازنہ برتیں۔ لڑکیوں کو بھی اسلامی حدود کے اندر خود مختارانہ ، آزادنہ اور شاہانہ زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادی کر دی جائے اور وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ شادی کے بعد آنے والی نئی زندگی میں متوسط گھرانے کی بچیوں کو جس نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے اس کے لیے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اخبارات گواہ ہیں کہ جہیز نہ لانے پر اور خانگی مسائل کی بنیاد پر لڑکیوں کو جو کچھ سہنا پڑتا ہے اس کی مصداق ہے۔

گزرتا دل پہ جو ہوگا وہ دل ہی جانتا ہوگا

بہو اور ساس کا مقدس رشتہ پامال ہوتا ہے ، گویا ظالم اور مظلوم کا رشتہ ہو یا حاکم اور محکوم کا رشتہ اور بعض اوقات دونوں فریق ایک دوسرے کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ، نعوذ باﷲ خدا محفوظ رکھنے ہم سبھوں کو۔ گنگا جمنی تہذیب میں ساس ماں کا اور بہو بیٹی کا رول ادا کر کے پیار اور آشتی کا ماحول بنائے رکھے۔ ساس اور بہو دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین مشفق ہوں۔ مخلوط تعلیمی ادارے بھی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ آج ہندوستان کی طرف نظر اٹھائیں جہاں کوئی بھی یونیورسٹی ، میڈیکل یا انجینئرنگ کالج ایسا نہیں ہے جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہو اور مسلمانوں کی اکثریت مخلوط تعلیمی ادارے (Co-educational institute) میں تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔

Muzaffar Nazneen, Kolkata

آج قوم کو ایسی بچیوں کی ضرورت ہے جن کے ا یک ہاتھ میں دینی تعلیم کا علم ہو تو دوسرے ہاتھ میں دنیاوی علوم کا پرچم۔ ایسا ماحول وجود عصر حاضر کی پکار ہے۔ اسلامی آداب و شعائر، پنج وقتہ نماز، مذہبی امور کی پابندی اپنے لیے لازمی سمجھیں۔ حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ محدود وسائل کے باوجود لڑکیوں نے مدھیامک ، ہائر سکنڈری ، جوائنٹ انٹرنس امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ مسلم بچیوں کی یہ کامیابی قابل ستائش ہے۔ کہتے ہیں کہ تخیل کی بلند پروازی ، روشن خیالی انسان کو اعلیٰ مقام عطا کر سکتی ہے۔ بچیوں کی انتھک کوشش، تک و دو والدین کی دلچسپی اور اچھے نسٹی ٹیوٹ کی رہنمائی رنگ لائی ہے۔ آج سے پچیس تیس سالہ قبل یہ تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مسلم طلبا و طالبات امتیازی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن بفضل خدا آج ان کی یہ کامیابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
آج مسلم طالب علموں کو میڈیکل، انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے لیکن ان کے یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پاتے۔ یہ ممکن ہے اگر مسلمانوں کا اپنا میڈیکل ، انجینئرنگ اور لا کالج ہو جسے اقلیتی کردار کا درجہ حاصل ہو، ایسی یونیورسٹیوں اور کالجوں کا قیام ہو جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں۔ اگر اس طرح کا ماحول وجود میں نہیں آتا تو پھر ہماری قوم مغربیت کی اندھی تقلید کرے گی۔ دینی تعلیم سے نابلد اور مشرقی علوم و فنون سے مبرا، بے راہ روی کا شکار ہوگی۔ یورپین طرزِ زندگی ، عریانیت ، فحاشیت مسلم معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر ے گی۔
اس ضمن میں اہل علم، دانشور، مشائخ اور قلم کاروں کو خاطر خواہ قدم اٹھانا چاہیے۔ اپنے شہر کلکتہ میں با ثروت اور اہل خیر حضرات کی کمی نہیں۔ یہاں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔مخیر حضرات کا مالی تعاون ہو اور اپنی سر زمین پر ایسے کالج کا قیام کریں جو آنے والے دنوں میں بہترین دانش گدہ ہو جہاں دینی اور عصری تعلیم کا بھر پور انتظام ہو۔ جانفشانی اور لگن سے ملی خدمات انجام دئیے جائیں تو ہماری بچیاں بھی عملی زندگی میں شاندان کامیابی حاصل کر کے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں اور خود کفیل ہو سکتی ہیں۔
لٹا دو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
جذبۂ شاہجہانی ہو تو تاج محل کی تعمیر ممکن ہے۔ شہر نشاط وہ شہر ہے جس نے ستم دہ شاہِ اودھ نواب واجد علی شاہ کو پناہ دیکر دضع مروت نباہ دی جن کا روضہ مٹیا برج (کلکتہ)میں شہر کولکاتا کی محبت اور رواداری کی گواہی دے رہا ہے۔ خدا کرے ایسے دانش کدہ اور جولان گاہ کا قیام ہو جو مستقبل میں دینی اور دنیاوی تعلیم سے ہم آہنگ ہو۔ انشا ء اﷲ خداہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین ثم آمین۔
امت مسلمہ کے سینے میں اسلام کا دل دھڑکتا ہے۔ یہ امت خود رہ پودوں کی طرح زمین سے نہیں نکلی بلکہ اﷲ جل شانہٗ نے اسے نکالا ہے۔ یہ خود اپنے لیے باہر نہیں آئی بلکہ خدا کی مخلوق کی خدمت اور ہدایت کے لیے ہم نے ملی خدمات انجام دی ہیں۔ مسلم معاشرے میں بیداری آئی ہے لیکن ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے سفر پر گامزن رہنا ہے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال  ؎
تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ