Ticker

6/recent/ticker-posts

ہے جوئے شیر ہم کو نور سحر وطن کا — قلم مظفر نازنین، کولکاتا

ہے جوئے شیر ہم کو نور سحر وطن کا – یوم آزادی ہندوستان مضمون

از قلم مظفر نازنین، کولکاتا
ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ جب ہندوستان انگریزی سامراج کی غلامی کے شکنجے میں تھا تو وطن عزیز ہندوستان کو انگریزوں کی طوق غلامی سے نجات دلانے کیلئے مجاہدین آزادی کمربستہ ہوگئے اور وطن عزیز کو آزاد کرانے کی ٹھان لی۔بلاتفریق مذہب و ملت ہندو مسلم، سکھ عیسائی نے اپنے عزیز ترین جانوںکی قربانیاں پیش کیں۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں نے اہم کردار کیا۔ کبھی مجاہد آزادی کی شکل میں، کبھی انقلابی شاعر کے روپ میں تو کبھی ملک کے جانباز سپاہی بن کر قوم کی خدمت کی۔ شاعری احساس کی ترجمانی ہے۔ جذبات کی عکاسی ہے شاعر جب شدت غم سے لبریز ہوتا ہے یا جب کوئی خواہش حوادثات کے تھپیڑے کھا کر ساحل مراد کو پہنتی ہے تو شاعر اپنے نوک قلم کی جنبش سے اسے کاغذ پر رقم کرتے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار ذہن و دماغ پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ اردو شعراء کے اشعار سے قومیت کا وہ جذبہ ابھرا جس سے بے شمار محبان وطن نے اپنے عزیز ترین جانوں کی قربانیں پیش کیں۔ بیشتر مجاہدین آزادی نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آزادی حاصل کرنے کے لیے زندگی داؤ لگادی۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ یوں رقم طراز ہیں ؎
برسوں سے ہورہا ہے برہم سماں ہمارا
دنیا سے مٹ رہا ہے نام و نشاں ہمارا
کچھ کم نہیں اجل سے خواب گراں ہمارا
اک لاش بے کفن ہے ہندوستاں ہمارا

مسلمان غدارانِ وطن نہیں بلکہ جانثارانِ وطن ہیں

مسلمانوں نے اپنے لہو سے سر زمین ہند کو پہنچایا۔ آج جو مسلمانوں کو غدار وطن کہتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مسلمان غدارانِ وطن نہیں بلکہ جانثارانِ وطن ہیں۔ ہندوستان میں ایسے مسلمانوں نے جنم لیا جن کی قوم و ملت کے تئیں گراں قدر خدمات قابل ستائش ہیں۔ کبھی ہندوستان کے عظیم رہنما بن کر تو کبھی جانباز سپاہی بن کر سر زمین ہند کی آبیاری کی۔ کبھی حوالدار حمید اور اشفاق اللہ خاں بن کر جام شہادت نوش کیا اور انگریزوں کی غلامی سے وطن عزیز ہندوستان کو آزادی دلائی۔ کبھی مولانا ابوالکلام آزاد بن کر قوم کی رہنمائی کی تو کبھی مولانا محمد علی جوہر، اور مولانا شوکت علی جوہر بن کر حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا۔ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ ہندوستان کے بڑے اسلامی ادارے ہیں جہاں سے طلبا نے تعلیم حاصل کرکے ملک اور قوم کی خدمت کی ہے۔ کارگل کی لڑائی میں مسلمان شہید ہوئے۔ تاریخی بابری مسجد ۶؍دسمبر،۱۹۹۲ء؁ کو شہید کردی گئی۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا گیا۔ ان میں بیشتر ایسے مسلمان بھی تھے جنہوںنے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے ہندو بھائیوں کو بچایا اور برادرانِ وطن کے شانہ بشانہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھا۔ مسلمانوںنے کس کس طرح اور کس کس شکل میں حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا اس کے لیے کسی تصدیق نامہ یا Certificate کی ضرورت نہیں بلکہ سنہرے ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں ۔ تحریک آزادی کا بغور مطالعہ کریں عہدِ وسطیٰ اور تاریخ ہند کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ مسلمانوں نے کس حد تک ملک اور قوم کی خدمت کی۔
زندگی کے ہر شعبے میں سائنس، ٹیکنالوجی، اسپورٹس، سیاست اور ادب میں مسلمانوں کی شایان شان کارکردگی رہی اور انہوں نے ہر طرح سے اور ہر پہلو سے دامے ، درمے، قدمے، سخنے ،فہمے ہر شعبۂ ہائے حیات میں بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کی ہے اور قومی پرچم بلند کیا ہے۔ اس طرح بے لوث حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا جبکہ صلے میں انہیں کچھ بھی نہیں ملا، سوائے بدنامی اور رسوائی کے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شر اور فتنہ سے ہی انہیں سروکار ہوتا ہے۔

آج دنیائے ادب ہو یا میدان سیاست ہر مقام پر دھاندلی ہے

آج دنیائے ادب ہو یا میدان سیاست ہر مقام پر دھاندلی ہے۔ ایسے ایسے لوگ جو کرسیٔ وزارت پر براجمان ہیں اور مقتدر اعلیٰ پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے یہاں زبان تہذیب، سلیقہ اور شعار نام کو بھی نہیں۔ مسلمانوں کیلئے ناشائستہ الفاظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کی دل شکنی کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ مسلمانوں نے اپنے لہو سے سرزمین کو سینچا ہے اور خون جگر سے اس کی آبیاری کی ہے۔ آج جو لوگ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہیں انہیں رہذیب کے دائرے میں رہ کر ہی کچھ کہنا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تہذیب اور تعلیم سے مبرا ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
آج اسی دہلی سے اقتدار اعلیٰ پر پہنچ کر زہر افشانی کی جاتی ہے ۔ کیا یہی ہندوستان کی جمہوریت ہے؟ کیا اسی کا نام سیکولرزم ہے ہندوستان جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین جمہوری ملک کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ وہاں مذکورہ تمام باتیں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک ہیں۔ ۱۵؍اگست، ۱۹۴۷ء؁ کو ہندوستان آزاد ہوا اور اس کے تین سال بعد ۲۶جنوری، ۱۹۵۰ء؁ کو ہندوستانی دستور اساسی کا نیا قانون نافذ ہوا۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر جو دلتوں کے مسیحا تھے، انہوں نے ایسے قوانین کی تشکیل کی جہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق اور مساوی درجہ دیا۔ جبری تبدیلیٔ مذہب دستور اساسی کے خلاف ہے۔ مسلمان ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اگر ان کی نسل کشی کی جائے اور ان کی شناخت ختم کردی جائے تو ہندوستان کا وجود نا مکمل ہے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے وقت تابناک ماضی میں عظیم کارناموں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ شاید اس لئے شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
آج ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت ہے۔ تب ہی ایک منظم اور مستحکم ہندوستان کی تشکیل ممکن ہے۔ مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد علم بردار تھے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ہندو مسلم یکجہتی کیلئے وقف کردی۔ آج ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا جاتا ہے، لیکن حق اور باطل میں تمیز ہونا چاہئے۔ ہندوستان ایک قوس قزح کی مانند ہے اور قوس قزح سات رنگوں میں ہی مکمل ہوتا ہے۔ اس میں ایک رنگ بھی غیر نمودار ہو تو اس کی خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے۔ یہی کیفیت وطن عزیز ہندوستان کی ہے۔ Different language but one nationکا مصداق آج ہندوستان آزاد ہے۔ ہمیں وطن کی خاک پسند ہے۔ وطن عزیز ہندوستان کی تہذیب ، یہاں کی ثقافت ، یہاں کی وراثت دوسرے ممالک سے جداگانہ ہے۔

کیا یہی ہندوستان کی جمہوریت ہے؟

Independence Day Essay In Urdu Urdu Notes

Independence Day Essay In Urdu Urdu Notes By Muzaffar Nazneen


ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمدو مسلم اتحاد قائم رہے۔ جو تہذیب اور ثقافت ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ اس کا تحفظ ہمارے لئے لازمی ہے۔ اور وہ تب ممکن ہے جب مشترکہ تہذیب کاپاس رہے۔ جس طرح اردو زبان پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ اردو زبان صرف مسلمانوں کی ہی زبان نہیں ۔ ہندوؤں نے اسے گلے لگایا اور اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبست، راجندر سنگھ بیدی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ، دیا شنکر نسیم جیسے عظیم شعراء گزرے ہیں۔ اسی ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے پر ہی ہندوستان مکمل ہے، جس کیلئے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ لازمی جز ہے۔ تب ہی ہندوستان متحد ہوسکتا ہے، گو کہ ہمارے روحانی عقائد مختلف ہیں، لیکن ہم سب ایک ہیں اور مر کر بھی اسی سر زمین میں پیوست خاک ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہندوستان پر ناز و فخر ہے۔ اسی سر زمین پر چشتیؒ، نانک، گوتم اور مہاویر نے جنم لیا۔ بقول شاعر ؎
چشتیؒ نے جس زمین پر پیغام سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
آئیے فخر سے کہیں کہ ہندوستان عظیم ہے اور "Our India is great and we are Indian"کے مصداق ہم سب ایک ہیں: ’’ہے جوئے شیر ہم کو نورِ سحر وطن کا‘‘
اور جدید ہندوستان کی تشکیل کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ خدا کرے آفتاب اور ماہتاب کی کرنوں سے سارا بھارت جگمگائے۔
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail :
muzaffarnaznin93@gmail.com
Read More اور پڑھیں

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ