Ticker

6/recent/ticker-posts

آسمانِ صحافت کا درخشاں و تابندہ ستارہ : راشد احمد

آسمانِ صحافت کا درخشاں و تابندہ ستارہ : راشد احمد

از قلم مظفر نازنین ، کولکاتا
وطن عزیز ہندوستان میں ایسی بہت ساری شخصیتوں نے جنم لیا ہے جن پر ہمیں ناز ہے۔ سر زمین بہار کی ایسی ہی ایک عظیم ، معتبر، گراں قدر علمی و ادبی شخصیت اور مایہ  ناز ہستی ہے جن پر بہار تو کیا سر زمین ہند کو فخر ہے۔ جو قوم و ملت کے مسیحا ہیں اور نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ کے مصداق صحافت میں اپنا قدم جمائے ہوئے ہیں۔ میری مراد اور صحافت کی دنیا میں عزت مآب راشد احمد صاحب سے ہے۔ جو وطن عزیز ہندوستان کے مایہ ناز، باعثِ افتخار ، ہر دل عزیز اردو صحافی ہیں۔ جن کے لیے شاعر کا یہ شعر کافی ہے :
کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے وہ اتنا ہی خاموش ہے

راشد احمد صاحب بالکل اسم با مسمیٰ ہیں


Sahafat Ke Aasmaan Ka Sitara : Rashid Ahmed
Rashid Ahmed

راشد احمد صاحب بالکل اسم با مسمیٰ ہیں۔ جیسا ان نکا خوبصورت نام ہے۔ ویسے ہی ان کے صفات ہیں۔ یہ نام ہے ایک ایسے صحافی کا جو حق کا جانبدار ، بے باک صحافت کا علمبردار ، وطن کی ترقی کا پرستار۔ اپنی صحافت کی منزل پر رواں دواں ہے۔ راشد صاحب کی پیدائش نالندہ بہار میں 5؍ جنوری 1964 ء کو ہوئی۔ سر زمین ہند میں بہار خصوصاً نالندہ کی خاصی اہمیت رہی ہے۔ گپت دور میں یہ ’’عہد زریں‘‘ یا ’’سنہرا دور‘‘ کہتے ہیں۔ اس دور میں نالندہ یونیورسٹی کا شمار بہترین درس گاہوں میں ہوتا رہا ہے۔ اور بلا شبہ بہار کی اس سر زمین میںراشد صاحب نے آنکھیں کھولیں تھیں۔ ان کا تعلق ادبی اور علمی خانوادے سے ہے۔ بلا شبہ جس کا اظہار ان کی شخصیت سے ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت میں ظرافت اور لطافت کی چاشنی اور طبیعت میں کچھ شگفتگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے 1982 ء میں Class X میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ پھر نالندہ کالج بہار شریف سے بی - اے(آنرز) کیا اور 1988 ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے MA in Economics مکمل کیا۔موصوف نے Teaching میں MJMC (Masters in Journalism and Mass Communication) کیا اور اس میں ان کی شاندار کارکردگی رہی۔ ایک طویل عرصے سے میدانِ صحافت سے منسلک ہیں۔

صحافتی کرئیر کا آغاز

موصوف ابتدائی دور میں نیوز ایجنسی اور پھر ’سماچار بھارتی‘ سے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز کیا۔ بعد ازیں پٹنہ سے شائع ہونے والا روزنامہ ’سنگم‘ ہندی اور روزمانہ ’سندھیا‘ ، ’جوگانتر‘ سے جڑے رہے۔ اور پھر ان کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ مختلف رسالے اور اخبارات میں کالم نگار، مضمون نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ یہی نہیں ان کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ راشد صاحب آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن میں بھی گفتگو کرنے لگے۔ موقرروزنامہ ’قومی تنظیم‘ کے باضابطہ طور پر کالم نگار ہیں۔اور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کے طور اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
Muzaffar Nazneen Kolkata
Muzaffar Nazneen, Kolkata

نہ صرف اتنا ہی بلکہ اپنے اعلیٰ علمی اور ادبی صلاحیتوں کے بنا پر دوردرشن پٹنہ اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔ اور فی الحال ہے۔
راشد صاحب مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ میں درس و تدریس سے منسلک ہیں اور Masters in Journalism & Mass Communication پوسٹ گریجویٹ طلبا و طالبات ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اور فاضل طلبا و طالبات مختلف شعبۂ ہائے حیات میں خصوصاً صحافت میں نمایاں اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ بقول شاعر :
جہاں رہتا ہے روشنی لٹاتا ہے
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
اب تک درجنوں ملکی اور غیر ملکی سیمینار میں بحیثیت سینئر جرنلسٹ راشد صاحب کی نمائندگی رہی ہے۔ ان کے فکر و فن کا زاویہ بہت وسیع ہے اور باریٔ تعالیٰ نے انہیں غضب کی ذہانت اور بلا کی فطانت عطا کی ہے جو اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔ ان کا مطالعہ ماشاء اﷲ بہت وسیع و عمیق ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ متعدد ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔ جن میں گورنمنٹ آف بہار،بہار اردو اکاڈمی سے ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ عمر فرید میموریل ایوارڈ اور دربھنگہ سے سرفراز ہوئے اور حتیٰ کہ غلام سرور ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔
ان کے سامنے صحافت کی ایک بہت بڑی دنیا ہے۔ اور ان کے گوہر افکار، فکر وفن کا زاویہ بہت وسیع ہے۔ ذرہ سے آفتاب کا سفر طے کرنے میں راہ کی خاردار جھاڑیوں اور گھنے جنگلوں کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔ اور اپنے جذبے اور حوصلے پر ثابت قدم رہنا پڑتا ہے۔
People Thought He Was blessed from the start. However his begining weren't as glamourous as they thought. He had to suffer and fail multiple time just to attain whatever has right now. He is incredible human being who never loses hope.
تصنع اور ملمع سے کوسوں دورجیسا ظاہر ویسی باطن ، اندر اور باہر سے ایک، خانقاہی نظر اور قلندرانہ شخصیت کا راشد احمد ہے۔ آخر میں دنیا ئے صحافت کا یہ انمول گوہر جسے لوگ راشد احمد کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ہندوستان کے معروف ، عظیم سینئر اردو جرنلسٹ ہیں۔ اور ان کی گراں قدر صحافتی خدمات کو سلام۔ آسمانِ صحافت کا درخشاں ستارہ اور صحافتی دنیا کے اس گوہر نایاب کے لیے کچھ کہنا یا کچھ لکھنا دراصل سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ جن کے لیے یہ مصرعہ ہی کافی ہے۔
گوناگوں دلچسپیوں کے مالک ہیں۔
بظاہر جھیل ہے لیکن پسِ پردہ سمندر ہے
بغیر کسی خود نمائی کے نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور طلبا و طالبات کی علمی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جیسا کہ کسی ذرِ نایاب کو تراش خراش کر کے اس میں جلا پیدا کی جاتی ہے۔ اور یہ وہی کر سکتا ہے جو بذات خود ایسی گوہر نایاب کی مانند ہو اور ذہن میں یہ خواہش ہو جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے۔
میری آرزو رہی ہے ہر اک کو فیض پہنچے
میں چراغِ رہ گزر ہوں ، مجھے شوق سے جلاؤ
میں آسمانِ صحافت کی اس کہکشاں کو ان کی خداداد ذہانت ، قابلیت اور صلاحیتوں پر تہہ دل سے پُر خلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اور بارگاہِ رب العزت میں دعا کرتی ہوں کہ خدا راشد بھائی کو صحت کیسا تھ طویل عمر عطا کرے اور صحافت کی دنیا میں وطن ِ عزیز کی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ عالمی سطح پر کریں۔ ایسی شخصیتوں پر بلا شبہ ہمیں ناز ہے۔ آج دیش کو ایسے ہی عظیم شخصیتوں کی ضرورت ہے تب ہی وطن عزیز ہندوستان ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ اور یہ کہہ سکتے ہیں ایسی شخصیتوں کی بدولت ایک منظم اور مستحکم ہندوستان کی تشکیل ممکن ہے۔جناب راشد احمدبھائی زبان داں ہیں۔ موصوف اردو ، ہندی، فارسی پر قدرت ہونے کے علاوہ بنگلہ اور ملیالم بھی جانتے ہیں۔ 12 سال سے درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں اور ان کے کئی شاگرد بہت کامیاب اور اچھی پوسٹ پر ہیں۔ وہ آج بھی راشد بھائی سے رابطے میں ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ اچھے ٹیچر کی آج بھی بہت عزت کی جاتی ہے۔ بلاشبہ شاگرد کا عزت و احترام استاد کی روحانی غذا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلم طلبا سے زیادہ غیر مسلم طلبا استاد کا احترام کرتے ہیں۔
موصوف دور دردشن پٹنہ میں ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں نیوز ریڈر ہیں۔ بحیثیت استاد راشد بھائی کا ماننا ہے کہ لڑکیاں پڑھنے میں لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ serious اور more capable ہوتی ہیں۔ انہیں ہر شعبہ میں نمایاں کارکردگی انجام دینا چاہیے۔ صحیح کہتے ہیں devotion, dedication اور determination کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ آخر میں قوم و ملت کے لیے ان کا یہ پیغام ہے کہ :
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسانا چاہیے
قوم کے تئیں ان کا پیغام ہے کہ پیار کا پیغام عام کریں۔ امن اور شانتی کو یقینی بنانا انسانیت کو مستحکم کرنا ہے۔
Hard and continuous labour with proper guidance are the secret of success.
طلبا و طالبات کے لیے ان کا message ہے :
سچ اور محبت پر یقین کر کے آگے بڑھنا۔نفرت کو محبت سے برائی کو اچھائی سے شکست دینا ہے
 At the end, I congratulate respected Rashid Bhai for his outstanding performances & excellent contribution in the field of journalism of India. He is like the jewel of the crown in the field of journalism & mass communication. May the Almighty Allat (swt) showers His countless blessings upon Rashid Bhai the precious jewel of journalism.
ان کے لیے حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؔ کا یہ مشہور شعر صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ