Ticker

6/recent/ticker-posts

عصرِ حاضر اور اردو ادب اطفال، ڈاکٹرخلیل صدیقی قاضیؔ صاحب کی مرتب کردہ ماہرینِ تعلیم کے شاہکارمقالوں کا مجموعہ

عصرِ حاضر اور اردو ادب اطفال، ڈاکٹرخلیل صدیقی قاضیؔ صاحب کی مرتب کردہ ماہرینِ تعلیم کے شاہکارمقالوں کا مجموعہ

از قلم: مظفر نازنین ،کولکاتا
’’عصرِ حاضر اور اردو ادب اطفال‘‘ ڈاکٹرخلیل صدیقی قاضیؔ صاحب
کی مرتب کردہ ماہرینِ تعلیم کے شاہکارمقالوں کا مجموعہ
جنوبی ہند کے معروف شاعر، ادیب، صحافی، قلمکار جناب خلیل صدیقی صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’عصرِ حاضر اور اردو ادب اطفال‘‘ بذریعہ پوسٹ ہم تک پہونچا۔ یہ کتاب دراصل اردو ادب اطفال کے تعلق سے ہے۔ جس میں وطن عزیز ہندوستان کے جموں کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک اور پنجاب سے لیکر بنگال کے ماہرین تعلیم کے شاہکار تخلیقات کا مجموعہ ہے۔ یہ مقالے سیمینار میں پیش کئے گئے تھے جو اوصاف ایجوکیشن ٹرسٹ(Ausaaf Education) اور قومی کائونسل برائے فروغ اردو زبان National Council for Promotion of Urdu Laguageکے اشتراک سے منعقدہ کیا گیا تھا۔
@@@
Asar e hazir aur urdu adab atfal mahireen taleem ke maqalon ka majmua

یہ کتاب 304 صفحات پر مشتمل ہے

اس نادر اور بیش بہا مقالوں کو یکجا کرکے اور ترتیب دے کر ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب نے کتابی شکل دی ہے۔ یہ کتاب304 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق نہایت دیدہ زیب اور حسین ہے بلاشبہ ادب اطفال کے تئیں انکی گرانقدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ جو اردو ادب اطفال میں انمول اضافہ ہے۔ اور تمام مقالہ نگاروں جنہوں نے ادب اطفال کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا ہے۔ بلاشبہ اس شعر کی مصداق ہیں۔
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یارانِ غزلخواں یاد آتے ہیں
اس کو پڑھکر اردو ادب اطفال کے مختلف پہلو اور زموز آشکارہوتی ہیں ۔ اور اسے شائع کرنے گو یا ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ صاحب نے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ اس کتاب میں ادب اطفال کے حوالے سے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیاگیا ہے۔ اور بلا شبہ اس حوالے سے تمام پہلوئوں کو صفحہ قرطاس پر موتی کی طرح بکھیر دیا گیا ہے۔ اپنی ریاست مغربی بنگال سے راقم الحروف بشمول چھ قلمکاروں کے نگارشات ہیں۔ جن میں آصف پرویز ریسرچ اسکالر عالیہ یونیورسٹی کو لکاتا شاندار مضمون بعنوان’’اکیسویں صدی میں ادبِ اطفال‘‘ ۔محمد منظر حسین ،پروفیسر مولانا آزاد کالج کولکاتا کا شاندار مضمون بعنوان’’ اکیسویں صدی میں ادبِ اطفال اور مسائل‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ادب اطفال اور درسی کتابوں کا تعلق کے عنوان سے نیلوفر شاہین کا مضمون’’بدلتے منظر نامے میں صالحہ عابد حسین کی تحلیقات ‘‘ کے عنوان سے صوفیہ محمود مغربی بنگال اور ’’ادبِ اطفال اور ڈاکٹر ذاکر حسین‘‘ کے عنوان سے محمد گلزار عالم کلکتہ کے مضامین بہت خوب ہیں۔
Dr. Muzaffar Nazneen
مظفر نازنین
میں بے حد شکرگذار ہوں ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضیؔ صاحب کی کہ انہوں نے میرے مضمون بعنوان’’بدلتے عالمی منظر نامے میں اردو ادب اطفال کا مقام‘‘ صفحہ 207تا 209پر شائع کیا۔ صفحہ44پر سید اشفاق علی سید مظفر نبی ریسرچ اسکالر اورنگ آباد کا ایک بہت شاندار مضمون ہے جس کا عنوان’’ادب اطفال میں اسلامی تعلیمات کا حصہ‘‘ ہے اور موصوف نے اس مضمون میں اسلامی تہذیب اور شعائر کی اہمیت کو ادب اطفال میں احاگر کیا ہے۔صفحہ45پر لکھا ہے اسلام نے اپنی  تعلیمات میں ابتدا سے ہی بچوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ صفحہ47پر ڈاکٹر صدیقی افروز خاتون (اورنگ آباد) نے ادبِ اطفال میں نفسیات کی غرض و غایت کے عنوان سے مضمون لکھا ہے۔ اور صفحہ 49پر مختلف عمر کے بچوں کا مختلف زاویے سے نفسیات کا جائزہ کیا گیا ہے۔
ادبِ افال یا بچوں کے Learningکے تعلق سے پورے وثوق کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گی کے دوران تعلیم During upbringingبچوں کے Intalligent qurtint(IQ) Levelکا تعین کرنا (monitoring)انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کی intellegenyپر یاذہانت پر (IQ Level)کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے ۔0سے5سال تک کا پریڈ Most important Learning Periodہوتا ہے۔
بچوں کیupbrngingکیلئے ان کے milestanonکو بھی جاننا ضروری ہے۔ طبی نقطہ نظرModical point of viewکے مطابق جن بچوں کی پیدائش full lernیعنی 9 مہینے میں ہوتی ہے۔ وہPhysically mentalityیعنی ذہنی اور جسمانی طور پر کافی مضبوط ہوتے ہیں۔ اسی طرح جن کی پیدائش 9مہینے سے کم میں ہوتی ہے۔ وہ کمزور ہوتے ہیں۔ اور یہ Permatured babyکہلاتے ہیں۔ دوسرا اہم پہلو جو ہے وہ یہ کہ کسی بھی بچے کی ذہنیت پر ماحول کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔Yrs (0-5)کو important learning priodکہاجاتا ہے۔ اس عمر میں memoryیادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔
زیر نظر کتاب میں صفحہ72پر شیخ ارم فاطمہ (ریسرچ اسکالرSRTیونیورسٹی ،ناندیڑ کا ایک بہت شاندار مضمون بعنوان ’’ڈاکٹر خلیل صدیقی کی خدمات کا تنقیدی جائزہ۔ ادب اطفال کے حوالے سے ‘‘ نظر نواز ہوا۔
صفحہ 74پر موصوف یوں رقمطراز ہیں’’بچے قوم کا مستقبل  ہوتے ہیں۔ اس لئے ابندا سے ہی جسمانی نشو نما کے ساتھ ذہنی نشو نما اور تربیت بہت ضروری ہے۔‘‘ اس ضمن میں ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب کی کتاب ’’نثر پارے‘‘ کی اہمیت بتائی ہے۔ اس کتاب میں عظٰم و معتبر ادبی اور سیاستداں شخصیت پر سائنسی موضوعات پر صحت پر، پھل کی اہمیت پر، علم کی اہمیت پر، اخلاقیات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب کی یہ کاوش ادب اطفال میں گرانقدر اضافہ ہے۔ صفحہ75پر کہتے ہیں کتاب ھذا تلاش و جستجو اور ذوق و عمل کا بہترین نمونہ اور عمدہ خزانہ ہے۔ اس کتاب سے ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب کی فہم اور ذکاوت کا اندازہ ہوتا ہے۔
صفحہ93پر ڈاکٹر شیخ عمران، اسسٹنٹ پروفیسر، وسنت رائو نائیک گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ سوشل سائنس ناگپور کا ایک مضمون بعنوان’’ نظر اکبر آبادی اور ادب اطفال‘‘ ہے۔ جہاں صفحہ 95پر موصوف یوں رقمطراز’’ نظیر اکبر آبادی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب کو مذہب اور لغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کی بز م میں پہنچادیا۔
نظیر اکبر آبادی کے چند خوبصورت اشعار بھی قلمبند کیا ہے  ؎
جاڑے میں پھر خدا نے کھلوائے تل کے لڈو
ہر ایک خوابچے میں دکھلائے تل کے لڈو
کوچے گلی میں ہر جا بکوائے تل کے لڈو
ہم کو بھی ہیں گے دل سے خوش آئے تل کے لڈو
جیتے رہو تو پارو پھر کھائے تل کے لڈو
ادب اطفال کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے بلاشبہ نظیر اکبر آبادی اردو کے پہلے ایسے شاعر جنہوں نے بڑوں کے ساتھ بچوں کی دلچسپیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نظمیں تحریر کیں۔
’’بچوں کیلئے نظیر اکبر آبادی کی نظمیں۔ ایک جائزہ‘‘ ڈاکر نصرت آرٹس اینڈ سوشل سائنس ناگپور کا ہے جسمیں موصوف صفحہ 124پر نظیر اکبر آبادی کے ایس شعر کو رقم کیا ہے جہاں نظیر معصوم بھولے بھالے بچوں کو دعائوں سے نوازتے ہیں۔
جیتے رہیں سبھوں کے آس وراد والے
کیا عیش لوٹتے ہیں معصوم بھولے بھالے
’’اکیسویں صدی میں ادب اطفال : مسائل اور تدارک‘‘ پہ عنوان ہے مولاناآزاد کالج کو کولکاتا کے پی جی شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد منظر حسین صاحب کی جہاں صفحہ131پر جہاں موصوف نے ادب اطفال کو بہتر بنانے کیلئے کچھ تجاویز پیش کی ہے ۔ جس میں 5اور 7نمبر پوائنٹ اہم ہے۔’’ادب اطفال کو ڈراما اور فلمی انداز میں ٹیلی ویژن، یوٹیوب اور مختلف سوشل میڈیا کے ذریعے پیش کیاجائے۔ اور ادب اطفال کو اس طرح تخلیق کیاجائے کہ اسے سوشل میڈیا پر پیش کیا جاسکے۔
صفحہ190پرفریدہ بیگم ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کا بہت خوبصورت مضمون ’’اردو ادب اطفال میں علاقہ دکن کی خواتین کا حصہ نظر لو زشاندار مضمون فریدہ نثار احمدانصاری روحہ فطر کا مضمون’’ ادب اطفال میں افسانوی ادب ۔اساطیری کہانیاں بہت شاندار ہے۔ سیدہ ہما فرحین غضنفر جاوید اورنگ آباد نے بھی اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ عنوان دیکر خواتین کے رول کو بتایا ہے۔
صفحہ 268پر ڈاکٹر صفیہ بانو ۔اے۔ شیخ کی بہت شاہکار تخلیق بعنوان’’ادب اطفال اور کاسئہ سائنس‘‘ ہے۔ جہاں موصوفہ نے سائنس کے مختلف اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں۔ جدید سائنسی مضامین پر مضامین اور کتابیں مرتب اور تصنیف کرنی پڑیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ سائنس کی بہت ضرورت ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں ’’بدلتے عالمی منظر نامے میں اسماعیل میرٹھی اور علامہ اقبال کی ادبی خدمات کا جائزہ‘‘ اور شیخ اصغر شیخ اکبر (ریسرچ اسکالر ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد نے اپنے مضمون بعنوان’’ بدلتے  عالمی منظر نامے میں ٹیگور اور اقبال بحیثٰت بچوں کے ادیب‘‘ میں ٹٰگور اور اقبال کی شاعری جو بچوں کے حوالے سے ہیں روشنی ڈالی ہے۔
کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر خلیل صدیقی صاحب کی مرتب کردہ مشاہیر ادب کی فگار شاٹ کا مجموعہ ہے جنہوں نے اپنی نگار شاٹ سے اس کتاب میں قوسِ قزح کی مانند رنگ بھردیئے ہیں۔
آج COVID-19 اور Lockdownکے وجہ سے عالمی منظر نامے (world Scenro)بدل گئے ہیں۔
بچے اسکول اور کالج جانا بھول گئے ہیں۔ کلاس روم کا منظر ہمارے نظر کے سامنے نہیں ہے۔ اور ناہی وہ گہما گہمی جب اسکول کے لئے لاٹ میں بچے روئین کرتے۔ اور مائیں صبح بچوں کو اسکول کیلئے ناشتہ تیار کرنے اور ٹفن اور Water bottleلیکر بچے اسکول بس کا انتظار کرتے۔ آج ان بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرکے آنسو رواں ہوتے ہیں کہ کبھی کسی نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ اسکول اور کالج ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے۔
ایسے ماحول میں ادب اطفال ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے والے ہر اہل قلم جن کی نگارش اس کتاب ’’عصر حاضر اور اردو ادب اطفال ‘‘میں ہیں تہہ دل سے پر خلوص مبارکبادپیش کرتی ہوں کہ ادب کے تئیں انہوں نے اپنا فن ادا کیا۔ اور ڈاکٹر خلیل صدیقی قاضی صاحب کی شکر گذار ہوں کہ تمام نگارشات کویکجا کرکے حسین گلدستہ کے مانند پیش کیا ہے۔ جو واقعی عصرِ حاضر کا تقاضا ہے۔ اور وقت کی پکار ہے۔
ان کی اس کتاب سے بلاشبہ نئینسل فیضیاب ہوگی۔ مجھے پوری امید ہے کہ اس کتاب کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوگی میں تمام مشاہیر اہلِ قلم کیلئے بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خدا انہیں دانا رکھے اور ان کے زور قلم، زورِ سخن روز فہیم اور زیادہ ہو۔ تا کہ آئندہ اس سے بیشتر تخلیقات اور نگارشات منظر عام پر آسکے۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ