Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو کا مقدمہ اور میزانِ اِنتقاد وفکر — پروفیسر غازی علم الدین کی کتابوں پر تبصرہ: گل بخشالوی

اردو کا مقدمہ اور میزانِ اِنتقاد وفکر — پروفیسر غازی علم الدین کی کتابوں پر تبصرہ: گل بخشالوی

اردو کا مقدمہ

تصنیف، پروفیسر غازی علم الدین، (میر پور آزاد کشمیر)
تبصرہ، گل بخشالوی ( ناظم اعلیٰ قلم قافلہ)
اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سابق طالب علم اور درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ سابق پر نسپل میر پور آزاد کشمیر کے ممتاز سکالر چھ تصانیف کا خالق جناب غازی علم الدین کا تخلیقی میدان، لسانیا ت، تحقیق و تنقید ہے، گذشتہ دنوں ڈاک سے ان کی تین تصانیف ( میزانِ انتقاد و فکر،،لسانی زاو یے اور اردو کا مقدمہ ) ایک ساتھ وصول ہوئیں۔ مجھ جیسے ادب طالب علموں کے لئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوتا کہ کسی خاص صاحبِ علم کے ادب دوستوں کی فہرست میں ان کا نام آجائے۔
اردو کا مقدمہ  Urdu ka mukadma
اردو کا مقدمہ Urdu Ka Mukadma
پروفیسر غازی علم الدین اردو ادب کے مجاہد ہیں اگر یہ کہا جائے کہ آپ دور حاضر میں اردو ادب کے مجاہد ِ اعظم ہیں تو غلط نہیں ہو گا اس لئے کہ ان کا یہ جہاد اردو
ادب کے خوبصورت مستقبل کا ضامن ہے اردو ادب کی سرفرازی کے لئے کوشان غازی صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ زبان و ادب کی ترقی اور اردو کا حسن و جمال تحقیق کے ساتھ مثبت تنقید کے بغیر ممکن نہیں پروفیسر صا حب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اس لئے وہ ادبی حقائق کی دریافت کے لئے کوشاں رہتے ہیں
پروفیسر غازی علم الدین کی تصنیف اردوادب کا مقدمہ، ۷ تحقیقی، اور تنقیدی مقالات پر مشتمل ہے
پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم لکھتے ہیں،،اپنی کتاب لسانی مطالعے سے لے کر اردو کے مقدمہ تک پروفیسر غازی علم الدین کے سیال تحقیقی سفر کا نمایاں پہلو لسانی ہے ، سر سید احمد خان سے پروفیسر غازی علم الدین تک محافظینِ اردو کی ایک طویل کہکشاں موجود ہے جس کا ہر ستارہ ضوفشاں ہے ان تمام محسنینِ اردو ہر محاز پر اردو کا مقدمہ نا قابلِ تردید شواہد اور محکم دلائل سے ہیش کیا اردو دنیا ان کی معترف ہے!
اس لئے ہم اردو سے محبت کرنے والے دور ِ حاضر کے محققین کی علمی زندگی میں اردو کے تابناک مستقبل سے مایوس نہیں !!
Gul Bakhshalvi
Cell: +92 302 589 2786

میزانِ اِنتقاد وفکر

تصنیف، پروفیسر غازی علم الدین، (میر پور آزاد کشمیر)
تبصرہ ، گل بخشالوی ( ناظم اعلیٰ قلم قافلہ)
میزانِ اِنتقاد وفکر 168 صفحات کی اس تصنیف میں 22 مضامین ہیں اس کتاب کو ہم غازی علم الدین کی تحقیق، اور تخلیق کا گلدستہ کہہ سکتے ہیں اس تخلیقی گلدستے میں تاریخ ادب وثقافت کے علَم بردار شخصیات کے ادبی اور تخلیقی حسن وجمال پر لکھے مضامین ہیں، ان کی کتابوں پر تبصرے ہیں اور وہ کالم بھی ہیں جو قاری کے فکر و شعور کے در کھول دیتے ہیں
میزانِ اِنتقاد وفکر
میزانِ اِنتقاد وفکر
میں عام طور پر کسی بھی کتاب کی ورق گردانی سے قبل کتاب کا دیباچہ، پیش لفظ پڑھتا ہوں تو مجھے انداز ہ ہو جاتا ہے کہ پیش لفظ لکھنے والا صاحب ِ کتاب یا اردو ادب کا دوست ہے ۔ پیش لفظ ہی کتاب کو وہ آئینہ ہے جس میں ہم کتاب اور صاحب ِ کتاب کے شخصی وجود اور اس کے فکر وخیال کوپرکھتے ہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ کچھ اہلِ قلم ایسے بھی ہیں جو صاحب ِ کتاب کی کتاب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود اس کی خواہش کے ا حترام میں صاحب ِ کتاب کو تعریف و توصیف کے آسمان پر بٹھا دیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل صا حب ِ کتاب اور اردو ادب پر ظلم کے مترادف ہے ۔جب کہ اہل نظراردو ادب کے مجاہدوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بچشمِ خود دیکھ اور پڑھ کر اپنا مطا لعہ قاری کے حضور اپنے پیش لفظ میں پیش کر دیتا ہے میری نظر میں ایسے لوگ عظیم ہوتے ہیں!
میزانِ اِنتقاد وفکر کے پیش لفظ پڑھتے ہوئے میری نظر شعر وادب کے باب میں میرے اپنے نام پر پڑی تو پہلے حیران اور پھر پریشان ہو گیا ۔ اس لئے کہ میں نے خود کو کھبی شاعر تسلیم ہی نہیں کیا ، میں تو پشتو میں سوچ کر اردو میں لکھ اور پڑھ لیاکرتا ہیں، لیکن ا حمد فراز تو ہوں نہیں !! پریشان اس لئے ہوا کہ غازی علم الدین نقاد ہیں ۔ کہ کہیں انہوں نے میری شاعری کا پوسٹ مارٹم تو نہیں کردیا۔ پیش لفظ ادھور ا چھوڑ کر صفحہ نمر 144پر پہنچا ، لکھا تھا
’’گل بخشالوی ایک محب ِ وطن شاعر،، جانے میری کون سی کی کتاب ان کے ہاتھ لگی تھی جسے پڑھ کر انہیں میری حب الوطنی محسوس ہوئی اور آپ نے اردو ادب میں اتنے بڑے نا م ولقب سے نواز!مضمون پڑھ کر خوشی ہوئی اس لئے کہ پہلے ، ادبی خدمات پر ایم فل کا مقالہ لکھا گیا، پھر 37سالہ ادبی خدما ت کے اعتراف میں تاجپوشی ہوئی اور اب خوبصورت دیس آزاد کشمیر کے قابل صد تعظیم سکالر نے ایک محب وطن شاعر ہونے کے لقب کے اعزاز سے نوازا ہے ۔
میزانِ اِنتقاد وفکر کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد لکھتے ہیں، غازی صاحب کے مزاج میں مجھے یک گونہ رجائیت نظر آتی ہے وہ کسی بھی حال میں امید کے چراغ کو بجھتا تو دور کی بات،ٹمٹمانے کی اجازت بھی نہیں دیتے وہ شا خِ امید کو ہر دم ہرا بھرا رکھنے کے قائل ہیں یوں وہ تھکے ماندے اہلِ قافلہ کے لئے کسی مینار نور سے کم نہیں ان کی تحریریں مسلک گزیدگی سے پاک ادبی دھڑے بندیوں سے بے نیاز،معرو ضیت اور رجائیت کی آئینہ دار ہیں
پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد کے ان الفاظ میں غازی علم الدین کی شخصیت اور ان کی تخلیقات کی وہ روشنی ہے جس میں ہم اردو ادب کا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں
Gul Bakhshalvi
Cell: +92 302 589 2786

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ