Ticker

6/recent/ticker-posts

رشتے کو ہمیشہ نبھائیے اور مضبوط رکھیئے | اسلام میں صلہ رحمی رشتوں کی اہمیت

رشتے کو ہمیشہ نبھائیے اور مضبوط رکھیئے | اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت

محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سکریٹری
مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ۔ 9506600725
حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ان کی کنیت ابو عباد تھی ۔ قریش خاندان کے عبد مناف بن قصی قرشی مطلبی شاخ کے تھے۔ مسطح اولین مشرف باسلام ہونے والوں میں سے تھے، غزوئہ بدر کے علاوہ اور دیگر غزوات میں بھی آپ شریک رہے۔ آپ کا بدری صحابی ہونا آپ کے لئے بہت ہی شرف اور عزت کی بات ہے۔غزوئہ بنو مصطلق میں بھی آپ شریک تھے، جس میں افک کا واقعہ پیش آیا ۔ بشری تقاضے کی بنیاد پر افک کے واقعہ میں اور اس فتنہ میں آپ کا دامن بھی محفوظ نہ رہ سکا۔

اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت

جب منافقین نے افک کے واقعہ کو مشہور کیا اور اس کو منصوبہ بند طریقہ سے پروپیگنڈہ بنا کر اس کی تشہیر کرنے لگے ۔ جن چند صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ان منافقین کے دام فریب میں آگئے ۔ ان میں مسطح بھی تھے ۔ جنگ سے واپسی کے بعد انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار کے کھونے کا واقعہ اور دیگر تفصیلات اپنی ماں سے بیان کیا ۔ ایک دن ان کی والدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کسی بات پر مسطح کو بددعا دی ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم بدری صحابی کو بددعا دیتی ہو ،انہوں نے کہا تم کو نہیں معلوم ،ان لوگوں نے کیا افترا پردازایاں کی ہیں اور کل کے واقعہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنایا ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بہتان، جھوٹ اور افترا پردازی کا سب سے پہلے علم ان ہی کے ذریعہ سے ہوا ۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا تھا کہ مسطح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ اس لئے وہ ان کے ساتھ شفقت اور نصرت و تعاون کا خاص خیال رکھتے تھے اور ہمیشہ دامے درمے ان کی مدد کرتے تھے ۔برابر ان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسطح کے اہل خانہ اور والد والدہ کی مالی حالت اچھی نہیں تھی ۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ افک کے اس واقعہ میں مسطح بھی شریک ہے اور قرآن مجید نے اس کو افک قرار دیا ہے، تو انہوں نے مسطح اور ان کے اہل خانہ کی امداد کرنا بند کر دی اور کہا کہ اب مسطح پر پھوٹی کوڑی اور ایک حبہ بھی خرچ نہیں کروں گا، گویا تعاون نہ کرنے کی آپ نے قسم کھا لی ۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی خاص فقیر کی مالی مدد کرنا کسی خاص اور متعین مسلمان پر علی التعیین واجب نہیں ہے، اور جس کی مالی مدد کوئی کرتا ہے اگر وہ اس کو روک لے تو گناہ کی کوئ وجہ نہیں ،مگر صحابہ کرام کی جماعت کو حق تعالیٰ دنیا کے لئے ایک مثالی معاشرہ بنانے والے تھے ،اس لئے ایک طرف جن لوگوں سے لغزش ہوئی ان کو سچی توبہ اور آئندہ اصلاح حال کی نعمت سے نوازا ۔ دوسری طرف جن بزرگوں نے طبعی رنج و ملال کے سبب ایسے غریب و فقیر کی مدد ترک کرنے کی قسم کھالی ان کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم اس آیت میں دی گئی کہ ان کو یہ قسم توڑ دینا اور اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہیے ۔ ان کی مالی امداد سے دستکش ہوجانا ان کے مقام بلند کے شایان شان اور مناسب نہیں ۔ جس طرح اللہ تعالٰی نے ان کو معاف کر دیا ان کو بھی عفو و درگزر سے کام لینا چاہئیے۔
اس موقع یہ مندرجہ ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی۔

صلہ رحمی کے بارے میں احادیث

ولا یاتل اولو الفضل منکم و السعة ان یوتوا اولی القربى و المساکین و المھاجرین فی سبیل اللہ و لیعفوا و لیصفحوا ۔ الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ۔ و اللہ غفور رحیم
(سورہ نور ۔۲)

صلہ رحمی کے بارے میں آیات

تم میں سے جو لوگ صاحب فضیلت اور صاحب مقدرت ہیں وہ قرابت والوں محتاجوں اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو (مدد نہ دینے کی) قسم نہ کھائیں اور چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کر دیں ،مسلمانو ! کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مدد کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

Islam mein sila rahmi rishton ki ahmiyat rishtedaron ke huqooq
اس آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور مذکورہ آیت کریمہ پڑھ کر سنایا اور واقعہ کی تحقیق کی اور ایک طرح سے متنبہ کیا کہ آپ کے شایان شان نہیں تھا کہ دست سخاوت کھینچ لیتے۔

اپنے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کیا اہمیت ہے

بڑوں کی شان بڑی ہوتی ہے۔ معمولی بات اور مسئلہ پر بھی ان کے مقام و مرتبہ اور حیثیت کی وجہ سے ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ خواص کی شان میں کوئی کمی نہ رہ جائے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تو سب سے اعلی شان اور مرتبے کے حامل تھے۔
اس لئے اس آیت کے نزول کے بعد بدستور ان کی خبر گیری کرنے لگے ،لیکن چونکہ انہوں نے ایک محصنہ پر تہمت لگائی تھی اور اس کی سزا قرآن نے یہ تجویز کی تھی ۔ و الذین یرمون ۔الخ (نور ۲) یعنی جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ نہ لاسکیں تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ ۔اس لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ ان پر بھی حد جاری ہوئی۔

رشتوں کی قدر | خونی رشتوں کی اہمیت | رشتہ داروں کے حقوق

حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی مالی مدد کرنا کوئی شرعی واجب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذمہ نہ تھا اسی لئے قرآن مجید نے عنوان یہ اختیار فرمایا کہ اہل علم و فضل جن کو اللہ نے دینی کمالات عطا فرمائے ہیں اور جن کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وسعت و گنجائش ہے، ان کو ایسی قسم نہیں کھانی چاہیے۔
اس آیت کے اخیر میں الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ۔ کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہ معاف فرمادے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فورا کہا و اللہ انی احب ان یغفر اللہ لی یعنی بخدا میں ضرور چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی میری مغفرت فرمائے اور فورا حضرت مسطح کی مالی امداد جاری فرما دی اور یہ بھی فرمایا کہ یہ امداد اب کبھی بند نہ ہوگی۔
یہ وہ مکارم اخلاق ہیں جن سے صحابہ کرام کی تربیت کی گئ ہے ۔ اسی لئے حدیث شریف میں بھی فرمایا گیا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو رستہ داروں کے صرف احسان کا بدلہ اد کر دے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ داروں کے قطع تعلق کرنے کے باوجود یہ تعلق قائم رکھے۔
اس واقعہ میں جہاں ہمارے اور آپ سب کے لئے بہت سے دروس اور عبرتیں ہیں نصیحت اور غلطیوں کی نشان دہی ہے ،وہیں ایک سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ صلہ رحمی کو ہم اپنی زندگی کا خاص مشن بنالیں ۔ نادانی اور غلط فہمی میں ہمارے رشتہ دار لاکھ ہم سے دشمنی کریں پھر بھی ہم ان سے دست شفقت و عطا کو نہ کھینچیں اور اس رشتہ کو پائیدار اور مضبوط رکھیں اور آخری دم اور سانس تک اس کو نبھانےکی کوشش کریں کیونکہ یہ اسوئہ صدیقی کے ساتھ اسوئہ نبی بھی ہے ۔ یاد رکھئے ایسا کرنے سے آپ ہی کی شان ، وقار اور قد بلند ہوگا۔
یاد رہے کہ ،مسلمان کا حسن سلوک صرف والدین اور بیوی بچوں ہی تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ وہ اچھا برتاؤ ،حسن سلوک اور تعلق کا رشتہ قائم رکھتا ہے ۔ رشتہ داروں سے مراد وہ اعزاء ہیں جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلق ہو، خواہ ان کو میراث میں حصہ ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔

قطع تعلق کرنے کا حکم

اسلام نے رشتہ کو وہ بلند مقام رتبہ اور اعتبار دیا ہے، جو پوری تاریخ انسانیت میں کسی مذہب ،کسی نظریہ اورکسی شریعت نے نہیں دیا ،اسلام نے رشتوں کا پاس و لحاظ کرنے کی وصیت کی ہے ،صلہ رحمی کی ترغیب دی ہے ،اور قطع رحمی سے روکا ہے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،،
اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ،،
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی رزق میں کشادگی کردی جائے اور اس کی عمر بڑھا دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔۔ بخاری و مسلم۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ،، اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، اللہ کی عبادت کرو ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ،نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔۔۔مسلم و بخاری۔
صلہ رحمی ان اولین اسلامی مبادی و اصول میں سے ہے، جس کے ساتھ یہ دین روز اول ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا اعلان کیا،اس کی بنیادوں کی تشریح کی،اور اس کے نقوش واقع کئے۔
ضرورت ہے کہ ہم ان تعلیمات کو سمجھیں ،اس پر خود عمل کریں اور اسلامی معاشرے میں اس کو رواج دیں اور اوپر والے واقعے کو اپنے لیے نمونہ بنائیں ، صلہ رحمی کو فروغ دیں اور قطع رحمی سے بچیں اور بالکل اجتناب کریں۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ