Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کی تاریخ اور اس کی روح اور حقیقت، قربانی کے فضائل و مسائل

قربانی کیا ہے؟ قربانی کی تاریخ اور اس کی روح اور حقیقت، قربانی کے فضائل و مسائل

Qurbani


خطاب جمعہ

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

قربانی کیا ہے؟ Qurbani Kya Hai In Urdu


قربانی خدائے وحدہ لا شریک کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے اور اس کے حضور جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کا نام اور اس کا بہترین ذریعہ ہے۔

قربانی کی تاریخ Qurbani Ki Tareekh

اس کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے ۔ قربانی کی ابتداء اور آغاز اور نذرانہ کا رواج حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے وقت ہی سے ہو چلا تھا ،ان کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی اور نذرانے کا ذکر تو تورات و انجیل کے علاوہ خود قرآن مجید میں سورہ مائدہ میں بھی ہے ۔ قربانی کا وجود کسی نہ کسی شکل اور صورت میں ہر نبی اور رسول کے زمانہ میں ملتا ہے ،گو کیفیت اور طریقہ الگ الگ رہا ہو ۔ اور آج بھی شاید ہی کوئی قوم اور کوئی ملک ہو جہاں اس کا رواج کسی نہ کسی شکل میں نہ ہو۔
Qurbani

قربانی کب فرض ہوئی؟ زمانہ قدیم میں قربانی کی شکلیں

زمانہ قدیم میں قربانی کی شکلیں کچھ اس طرح رہی ہیں۔
جانور کو ذبح کرنے کے بجائے کسی اونچی جگہ یا پہاڑی پر رکھ دینا ۔ (پھر آسمانی آگ آتی اور جس کی قربانی درست ہوتی اس کو خاکستر کر دیتی یہ دلیل اور اشارہ ہوتا کہ بارگاہ ایزدی میں اس کی قربانی قبول ہوگئ ۔ ہابیل اور قابیل نے اسی شکل میں قربانی پیش کی تھی اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی اور قابیل کی قربانی کو قبول نہیں کیا) قربانی کی یہ شکل و صورت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں رہی ،اس زمانے میں ان کے بیٹے اسی طرح کی قربانی پیش کرتے تھے۔

قربانی کی اہمیت و رواج Qurbani Ka Nisab Kya Hai

جانور کو اپنے معبود کے نام پر چھوڑ دینا جیسا کہ ہندوستان میں رواج رہا ہے ۔ اس رسم کا سراغ ہمیں حضرت صالح علیہ السلام کے دور میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے ڈھائی ہزار سال بعد ملتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر اس طرح ہے ۔فقال لھم رسول اللہ ناقة اللہ و سقیاھا فکذبوہ فعقروھا ۔ عرب میں بھی اس کی مختلف شکلیں رائج تھیں وہ لوگ قربانی کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لٹھیڑتے تھے قرآن کریم نے بتایا کہ ۔ خدا کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں، اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہیئں ۔ قران مجید نے اہل عرب کی قربانی کے اس جاہلانہ رسم کی تردید کرتے ہوئے اللہ پر افترا اور بے عقلی کا کام قرار دیا : ما جعل اللہ من بحیرة ولا سائبة ولا وصیلة ولا ھام ولکن الدین کفروا یفترون علی اللہ الکذب و اکثرھم لا یعلقون۔

Qurbani Allah Ke Nabi Hazrat Ibraheem Alaihisslam Ki Sunnat Hai

ابراہیم علیہ السلام کا خواب اور قربانی کا آغاز

جانور کو ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت چڑھانے کا رواج بھی بودھ ،جین اور کنفیوشس دھرموں کے علاوہ تمام بت پرست قوموں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ اپنے اپنے روایتی طریقوں کے مطابق مختلف جانوروں کو کاٹ کر اس کا خون چڑھاتے ہیں، اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ بعض ملکوں جیسے جنوبی امریکہ کے ملک برازیل کی وحشی قوموں میں مانو بلی ( انسانی قربانی) بھی پایا جاتا ہے ۔ ہندوستان مین یگیہ کی تقریب میں پشو بلی یعنی جانوروں کی قربانی کا رواج رہا ہے ۔ دین ابراہیمی میں اس کی پہلی نشانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ خواب کرتا ہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا : قال یا بنیی انی اری فی المنام انی اذبحک ۔۔۔من الصابرین۔

قربانی کے رسومات ۔ Qurbani Ki Sharten

قربانی دینے کا ایک رسم یہ بھی رہا ہے کہ منت پوری ہونے پر اپنی اولاد لڑکا ہو یا لڑکی (زیادہ ترلڑکا) عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف کر دی جاتی تھی ۔حضرت مریم علیھا السلام کی والدہ کی نذر کا ذکر قرآن مجید میں ہے : و اذ قالت امرأة عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محفرا فتقبل منی ۔۔۔۔۔۔الخ)آل عمران ۴۵/ ۳۶) (مستفاد از پیش لفظ کتاب قربانی و عقیقہ کے شرعی احکام ، مولانا رحمت اللہ ندوی/ مولفہ راقم الحروف)

قربانی کی فضیلت قربانی کے مسائل

غالبا انہیں مذکورہ بالا صورتوں اور شکلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا و لکل امة جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمة الانعام۔ ( حج ۳۴)

نیت قربانی، آیین قربانی، آداب قربانی

جب اسلام کی آمد ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب رسالت و نبوت ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی لغو ، بے بنیاد اور رسوم و رواج کو کالعدم کردیا جبکہ کچھ امور کو چند ضروری اصلاحات و ترمیمات کے بعد برقرار بھی رکھا ۔ ان میں سے ایک قربانی کا عمل بھی ہے ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی اصلاحات کیں اور اس سے جاہلانہ اور خلاف شرع عمل کو ختم کیا۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ بتایا کہ قربانی صرف گوشت اور خون کا نام نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اسی راہ میں قربان ہونے کے لئے ہے۔

Qurbani Karna Kya Hai

قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات اور رسم و رواج کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے ۔ اس شعور کے بغیر جو بھی قربانی کی جاتی ہے ۔ جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی سنت نہیں بلکہ ایک قومی رسم اور سماجی رواج و طریقہ ہے جس میں گوشت و پوست کی کثرت و فراوانی ہوتی ہے لیکن وہ تقوی ناپید ہوتا جو قربانی کی روح ہے ۔ اور وہ اسپرٹ نہیں ہوتی جو قربانی کی جان ہے۔
ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالی کو جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقوی پہنچتا ہے

Eid al-Adha عید الاضحی

خدا کی نظر میں اس قربانی کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں جس کے پیچھے تقوی کے جذبات نہ ہوں ۔ خدا کے دربار میں وہی عمل مقبول ہے جس کا محرک خدا کا تقوی یعنی خوف و لحاظ ہو ۔ فرمان الہی ہے ۔ انما یتقبل اللہ من المتقین ۔ اللہ تعالٰی صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔

بقر عید میں کیوں دی جاتی ہے بکرے کی قربانی؟

قربانی اسلام کی دیگر اہم عبادات کی طرح ایک مہتم بالشان عبادت ہے، جو دراصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یاد گار اور ملت اسلامیہ کا اہم شعار ہے ۔ قربانی کا اجر و ثواب بے حد و حساب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئ چیز اللہ تعالی کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے ،اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے تو خوب خوشی اور دل کھول کر قربانی کیا کرو ۔ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔ قربانی کے جانور کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر چہ اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن صعیف حدیث کو فضائل کے باب میں بیان کرنے کی گنجائش ہے) ثمنوا ضحایاکم فانھا مطایاکم یوم الصراط قربانی کے جانور کو قیمتی اور فربہ رکھو کہ یہ پل صراط کے دن تمہاری سواری کے کام آئیں گے۔

عید الاضحی کی اہمیت

جس طرح قربانی کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے اسی طرح اس سنت براہیمی اور شعار خلیلی کے چھوڑنے پر وعید بھی بہت سخت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : من لہ سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہرگز ہرگز میرے مصلی اور عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے۔

Qurbani Ke Masail In Urdu

سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کو یہ عبادت اس قدر کیوں پسند ہے ؟ اور وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کے لئے اس قدر سخت وعید زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے بندے کی جانب سے قربانی بہت پسند ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اس قربانی کے ذریعہ اپنی بندگی کی طرف متوجہ ہونے اور خدائے واحد کے علاوہ دنیا کے تمام مصنوعی معبودوں سے منہ موڑنے کا پیغام دینا چاہتا ہے ۔ قرآن مجید نے اس جانب یوں اشارہ کیا ہے اور اس عقدہ کو اس طرح حل کیا ہے ۔ لن ینال اللہ لحومھا ولا دماءھا و لکن یناله التقوی منكم ( حج ۳۷)
اللہ تعالی کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا لہو لہکن اس کو پہنچتا ہے تمہارے دل کا ادب۔
اس آیت کریمہ کی تشریح میں علماء نے لکھا کہ۔
قربانی کا اصل مقصود اللہ تعالی کا خوف و خشیت دل میں جاگزیں ہونا اور ہر معاملہ میں شریعت اسلامی اور دین حنیف کا تابع فرمان بن جانا ہے ۔ یہ قربانی ہمیں اسی جانب متوجہ کرتی ہے کہ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آقا کے حکم پر لاڈلے لخت جگر اور پیارے نور نظر کو قربان کرنے کا تہیہ کرکے واقعی اپنی بندگی اور خلوص وللہیت کا ثبوت دیا ۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنی ۰۰ انا۰۰ (میں اور میں کی رٹ) ارشاد الہی اور احکام ربانی کے سامنے فنا کر دینی چاہیے ۔ بلا شبہ یہ عمل اور انسان کی یہ ادا انسانیت کی معراج ہے اور عبدیت کا سب سے زبردست مظہر اور دلیل ہے ۔ ۔ شعار براہیمی اور سنت خلیلی کی ادائیگی کا یہ دن یعنی قربانی کا دن ہر سال ہمیں چیخ چیخ کر متنبہ کرتا ہے کہ انسان اس وقت تک قربت خداوندی اور تقرب الہی حاصل نہیں کرسکتا ،جب تک کہ وہ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں قربانی دینے والا نہ بن جائے ۔ ایثار و قربانی اور ترجیح کا جذبہ اس کے سینہ میں موجزن نہ ہو جائے ۔ ذاتی مفادات کو ملی مفادات کے لئے قربان کر دینے کی عادت اور طبعیت نہ بن جائے ۔ قربانی صرف جانوروں کو ذبح کرکے خون بہا دینے کا نام نہیں ہے( یہ سال کے بارہ مہینہ بھی ہم کرتے ہیں ) بلکہ قربانی در اصل عنوان اور تمہید ہے حکم خداوندی کے سامنے خواہشات نفس کو مٹا دینے اور ملیا میٹ کر دینے کا ۔ اور یہ کام صرف ذی الحجہ کے تین دن کا ہی نہیں ہے یہ تین دن تو تربیت اور ٹرینیگ کے ہیں بلکہ سال کے تین سو پینسٹھ دن کرنے کا ہے ۔ قربانی کی یہ عبادت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت سے سبق حاصل کریں اور قربانی کے پیغام کو سمجھیں اور اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیں ۔ آج زندگی کے ہر موڑ پر اسلام ہم سے قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم ایسی قربانی دینے کے لئے آخری سانس تک تیار رہیں گے ۔

Qurbani Kis Par Farz Hai Hadees - Qurbani Ka Nisab Kya Hai

چلتے چلتے اس بات کا تذکرہ بھی کر دیتے ہیں کہ قربانی کامیابی کی شاہ کلید اور دنیوی و اخروی فوز و فلاح کی ضمانت بھی ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ قوموں کا عروج و ارتقا ان کی قربانیوں سے وابستہ ہے اور قربانی کا جذبہ سرد پڑنے کے بعد بڑی سے بڑی قومیں بھی نیست و نابود ہوکر تاریخ کے صفحات سے مٹ گئیں ہیں اور تاریخ کے نہاں خانوں میں چلی گئی ہیں۔
قربانی جیسی مہتم بالشان عبادت انجام دیتے وقت ہمارے سامنے صرف جانور کا گوشت و پوست نہ رہے ۔ بلکہ اس عبادت کے پس پشت جو عظیم آفاقی پیغام مضمر اور پنہا ہے اسے دل و دماغ اور قلب و نظر میں رکھ کر ہمیں اس عبادت کی سعادت سے بہرہ ور ہونا چاہئے اور اس عبادت کو ادا کرتے وقت یہ استحضار بھی رہنا چاہئے کہ

جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اور یہ مصرع بھی ذھن میں مستحضر رہے جو قربانی کی روح ہے کہ

سر تسیم خم جو مزاج یار میں آئے
******
Qurbani Karna Kya Hai Qurbani in Urdu Eid al-Adha عید الاضحی

قربانی چھوڑ کر غریبوں کی مدد کا مشورہ گمراہ کن ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

قربانی کے ایام میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ جو عمل محبوب ہے ,وہ قربانی ہے۔ اگر کوئی شخص صاحب نصاب ہوکر ان ایام میں قربانی نہ کرے اور اس کے بدلہ میں صدقہ اور خیرات کرے تو اس کا یہ عمل کار ثواب نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اگر وہ یہ سوچ کر ایسا کرتا کہ جانور کو ذبح کرنا فضول ہے اس کے بدلہ میں بہتر یہ ہے کہ ان پیسوں سے براہ راست غریبوں کی اور ضرورت مندوں کی مدد کر دی جائے تو اس کا یہ عمل فکر اور سوچ گمراہ کن اور خلاف شریعت ہے ۔ دین مروت کے خلاف ایک سازش ہے، نیز سنت خلیلی اور اسوئہ براہیمی کی توہین و استہزاء ہے۔

Qurbani Ki Sharten - Qurbani Ka Nisab Kya Hai

ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک حیات سے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ قربانی کی اور صاحب نصاب صحابئہ کرام کو اس کا مکلف اور پابند بنایا اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے لئے یہ وعید اور وارنگ بھی دی کہ صاحب حیثیت ہونے کے باوجود جو قربانی نہ کرے وہ ہرگز ہرگز میرے مصلی یعنی عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے ۔ ( میرے خیال میں یہ وارنگ اصلا آنے والے ان نام نہاد مسلمانوں اور اس زمانہ کے منافقین کے لئے تھی ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لئے یہ بعید تھا کہ وہ صاحب نصاب ہو کر قربانی نہ کرتے ہوں)
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اچانک آبادی دوگنی ہوگئی، انصار کے برابر وہاں مہاجرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آباد ہوئے ،مسلمانوں کی معیشت اور مالی پوزیشن بہت خراب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کے درمیان اس مسئلہ کے حل کے لئے مواخات کا رشتہ قائم فرمایا ، دس سالہ مدنی دور میں مدینہ میں سخت مالی بحران اور مشکلات کا بھی آپ کو سامنا کرنا پڑا ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صحابہ کرام کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ چلو اس سال قربانی کا عمل ترک کردو اور اس کے بدلہ میں اس پیسہ سے نادار،ضرورت مند اور محتاج مسلمانوں کی مدد کردو یا مجاہدین پر خرچ کردو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ قربانی کے دنوں میں ایک ہی قربانی کی، اس وقت تک وسعت و گنجائش اتنی ہی تھی، لیکن حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کو راہ خدا میں قربان کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی میری طرف سے قربانی کرتے رہنا ،سو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وصیت اور عہد کو نبھایا ۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بات عیاں اور بیاں ہو گئی، کہ لاکھ آسمانی افات بھی آجائے لیکن قربانی کا عمل اور شعار ترک کرکے اس کی قطعا گنجائش نہیں ہے کہ اس کے بدلے ان پیسوں سے ضرورت مندوں کی مدد کر دی جائے ۔ بلکہ ضرورت مندوں ( اور سیلاب زدگان) کی مدد دوسری رقم سے کرنا ایسے موقع پر ضروی اور واجب ہے ۔ مسلمان اپنا یہ مزاج بنائے کہ ہم آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جب بھی امت پر اور انسانیت پر مشکل گھڑی آئے گی، ہم دامے درمے قدمے اور سخنے ان کی ضرور مدد کریں ۔
امت میں ایک طبقہ ترقی پسند ،روشن خیال اور نام نہاد لوگوں کا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں ، جو شریعت پر عقل کو مقدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،جو اپنی رائے کو شریعت پر فوقیت دینا چاہتے ہیں اور روح شریعت اور اسرار شریعت کو سمجھے بغیر عقل و قیاس کو حاکم بنانا چاہتے ہیں ،خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ نااہل اور جاہل لوگ فتوی دینا شروع کر دیں گے خود بھی ڈوبیں کے اور دوسروں کو بھی لے ڈوبیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کیرلا میں بھاینک سیلاب آیا تو بعض حلقوں سے یہ آواز آنے لگی کہ مسلمان اس سال قربانی نہ کرکے اس پیسے سے ان سیلاب زدگان کی مدد کریں۔ یہ انتہائی گمراہ کن اعلان تھا اور ہے کہ ایک شعار کو چھوڑنے کا مشورہ دیا جانے لگا ۔ کل حج کے بارے میں بھی یہ آواز اٹھنے لگے گی، کہ اس سال ملک میں سخت سیلاب ہے یا آسمانی آفات آئی ہیں اس لئے مسلمان اس سال حج نہ کرکے ان رقوم سے مصیبت زدگان کی مدد کریں ۔
ایسے وقت میں یقینا ان پریشان حال لوگوں کی مدد مسلمانوں پر بلکہ سارے ہی لوگوں پر ضروری ہے، لیکن کسی رکن اور شعار کو ترک کرکے نہیں ۔ بلکہ اس سے ہٹ کر مدد کرنا ضروری ہے الحمد للہ لوگ مدد کرتے ہیں ۔ حکومتیں مدد کرتی ہیں ۔ بہت سی تنظیمیں اور جمعیتں اسی لئے قائم ہوئی ہیں ۔ جمعیت علمائے ہند ،امارت شرعیہ اور جماعت اسلامی کے ایسے موقع پر جو کارنامے ہوتے ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ۔ ہم مسلمانوں کی خاص طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان تنظیموں اور ان کے افراد پر بھروسہ کریں اور ان کے توسط سے ان ضرورت مندوں کی مدد کریں ۔ ہاں یہ کرسکتے ہیں کہ اس سال ہم نئے جوڑے نہیں سلائیں گے ۔ فرنیچر نہیں بدلیں گے ۔ سال میں عمرہ پر عمرہ نہ کرکے ان پیسوں سے سیلاب زدگان کی مدد کر دیں گے ۔
ایک اور بات کی جانب اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا اور گوشت کھانا ہی نہیں ہے اس سے خدا کی مرضی اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے وہیں اس سے لاکھوں لوگوں کی معیشت اور روز گار بھی جڑا ہوا ہے ۔ لاکھوں غریبوں کے گھر میں سال بھر بقرعید کے جانور کو فرخت کرکے چولھا جلتا ہے ۔ اربوں لوگوں کا مفاد اس سے وابستہ ہے ۔ حکومت کو بھی اس سے کڑرووں کا فائدہ ہوتا ہے ۔ فیکٹریاں اس سے آباد رہتی ہیں ۔ قربانی کا معاشی فائدہ کتنا ہے اس کا اندازہ اس رپوٹ سے لگایا جاسکتا ہے ۔
دو سال پہلے کی رپورٹ ہے کہ عید الاضحیٰ پر ایک اندازے کے مطابق 4 کھرب روپے سے زیاده کا مویشیوں کا کاروبار ہوا۔ تقریباً23 ارب روپے قسائیوں نے مزدوری کے طور پر کماۓ،3 ارب روپے سے زیاده چارے کے کاروبار نے کماۓ،
نتیجه: غریبوں کو مزدوری ملی کسانوں کا چاره فروخت ہوا۔
دیهاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملی، گاڑیوں میں جانور لانے لے جانے والوں نے اربوں روپے کا کام کیا
بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لیۓ مهنگا گوشت مفت میں ملا، کھالیں کئی سو ارب روپے میں فروخت هوئی هیں، چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملا، یه سب پیسه جس جس نے کمایا هے وه اپنی ضروریات پر جب خرچ کرے گا تو نه جانے کتنے کھرب کا کاروبار دوباره هو گا۔
یه قربانی غریب کو صرف گوشت نهیں کھلاتی, بلکه آئنده سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست هوتا هے، دنیا کا کوئی ملک کروڑوں اربوں روپے امیروں پر ٹیکس لگا کر پیسه غریوں میں بانٹنا شروع کر دے، تب بھی غریبوں اور ملک کو اتنا فائده نهیں هونا جتنا الله کے اس ایک حکم کو ماننے سے ایک مسلمان ملک کو فائده هوتا هے،
اکنامکس کی زبان میں سرکولیشن آف ویلتھ کا ایک ایسا چکر شروع هوتا هے که جس کا حساب لگانے پر عقل دنگ ره جاتی هے۔
کیا آسمانی آفات اور سخت مشکل معاشی حالات یا کوئی دینی اور شرعی ضرورت کی بنا پر وقتی طور پر قربانی جیسی عبادت کو چھوڑ کر اس رقم اور پیسے سے کیا ان انتہائی سخت ضرورت مندوں کو جو آسمانی یا زمینی آفات میں پھنس گئے ہیں ان پر خرچ کیا جاسکتا ہے ؟ یا کسی دینی تقاضے پر مصلحتا اس کو خرچ کیا جاسکتا ہے ؟ جمہور علماء تو اس کی اجازت نہیں دیتے کہ قربانی جیسی عبادت کو چھوڑ کر کسی اور مد میں اس کی رقم کو اگر چہ سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو اس کو خرچ کیا جائے ۔ البتہ بعض علماء نے وقتی طور پر مصلحتا اس کی اجازت دی ہے لیکن ان فتاویٰ کو قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔
۱۹۱۲ء میں جب ترکی میں خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے سخت مالی امداد کی ضرورت تھی ، دواؤں کی عدم دستیابی کی بنا پر بھی لوگوں کی جانیں جارہی تھیں، تو اس وقت ہندوستانی مسلمانوں نے بھی ترکی کی ہر اعتبار سے مدد کی، ڈاکٹر مختار انصاری طبی وفد کے ساتھ ترکی کی محاذ پر بھیجے گئے تھے ۔ اتفاق سے وہ موقع بھی عید قرباں کے قریب کا تھا ،علامہ شبلی نعمانی رح نے اس موقع پر عید الاضحی میں قربانی کی رقم کو ترکوں کی مدد کے لئے ارسال کرنے کے جواز کا فتوی دیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ فتویٰ مرتب کرایا تھا، انہوں بے اس سلسلہ میں فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ سے مدد لی۔( مولانا نے اپنی تائید میں ہدایہ کی یہ عبارت پیش کی تھی۔ والتضحیة فیھا افضل من التصدق بثمن الاضحیة یعنی عید الاضحی کی قربانی کے دنوں میں قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے قربانی بہتر ہے اس عبارت کا مقصود یہ ہے کہ اگر قربانی کے جانور کی قیمت نقد خیرات کردی جائیں تو وہ اس صدقہ کا بھی ثواب ہوگا ،مگر قربانی کی سنت کے ثواب سے محرومی رہے گی ۔ جیسا کہ اس کے آگے کی عبارت میں یہ تفصیل موجود ہے لانھا تقع واجبة او سنة و التصدق تطوع محض فتفضل علیہ)
اس فتوی پر مولانا عبد اللہ ٹونکی اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے تائید کی اور پھر اس کو شائع کیا ۔ اور ہزاروں روپئے بھی جمع ہوئے ۔ لیکن جمہور علماء نے خلافت کی بقا کے لئے علامہ شبلی نعمانی رح کی دردمندی، اشک سوئی،ملی غیرت اسلامی حمیت اور ان کی فکر مندی نیز ان کے مذھبی جوش کا تو اعتراف کیا اور اس سے متاثر ہوئے لیکن ان کے اس فتوی کو قبول نہیں کیا اور اس پر اعتراض جتایا ۔ مولانا کے اس فتویٰ پر اعتراض کرنے والوں میں مولانا ظفر علی خان مرحوم پیش پیش تھے ۔ علامہ شبلی نعمانی رح اور مولانا ظفر علی خان صاحب مرحوم کے درمیان مراسلت ( خط و کتابت ) بھی ہوئی ۔ علامہ شبلی نعمانی رح نے مولانا ظفر علی خاں کو اپنے موقف کی تائید میں یہ خط بھی لکھا تھا۔
عزیزی مولوی ظفر علی خاں صاحب دام قدرہ السلام علیکم میں نے جو فتوی لکھا، اس سے علمائے فرنگی محل بھی متفق ہیں اور مولوی عبد الباری صاحب کا خط بھی شائع ہو چکا ہے ۔ ہدایہ میں اس کا جزئیہ موجود ہے، البتہ ہدایہ میں صرف جواز ہے اور میں نے افضلیت کا فتوی دیا ہے ،اس قدر میرا اجتھاد ہے ۔ بھائی ! ترکوں کی اعانت اس وقت فرض عین ہے اور قربانی کا درجہ واجب سے زیادہ نہیں، آپ کہتے کہ سنت ابراہیمی موقوف نہ ہو،ہاں وہی سنت مقصود ہے ۔ فرق یہ ہے کہ آپ اس سنت کو لیتے ہیں جس کا مینڈھے پر عمل ہوا اور میں وہ پیش نظر رکھتا ہوں جو اسمعیل (علیہ السلام) پر مقصود تھی ۔ کیا ترکوں کی جان مینڈھے سے بھی کم ہے ؟
(حیات شبلی ص ۴۵۴ بحوالہ ندوہ العلماء کا فکری و ملی شعور)
اس تحریر سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مولانا کا موقف بظاہر کتنا مضبوط اور مستحکم تھا لیکن علامہ شبلی نعمانی رح کی اس قدر درد مندی ۔ فکر سوزی اور دینی حمیت کے باوجود جمہور علماء نے ان کے اس موقف کو نہیں سراہا اور کھل کر ان کی تائید نہیں کی ۔ کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر ہدایہ کی اس عبارت کی روشنی میں علامہ کی تائید ہوئی تو آگے بہت سے فتنے کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اسلام کے بہت سے شعار اور ارکان کے بارے میں وقتی طور پر اس سے رکنے کا جواز فراہم کرنا ہوگا۔
جب خلافت عثمانیہ جیسے حساس اور ملی مسئلے میں اس کے جواز کی اجازت نہیں دی گئی، تو کسی علاقہ اور صوبہ میں آئے طوفان سیلاب اور آسمانی افت کی بنیاد پر بھلا اس کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ قربانی کے عمل کو ترک کرکے اس کی قیمت سے سیلاب زدگان یا ضرورت مندوں کی مدد کی جائے ؟ اس کے لئے مسلمانوں کے پاس بہت سے مدات ہیں جن سے وہ ان مصیبت زدگان کی مدد کر سکتے ہیں۔
****

قربانی کی روح، حقیقت اور پیغام Qurbani Ki Niyat - Qurbani Ke Masail

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

قربانی ایک اہم اور مہتم بالشان عبادت ہے ۔ جو در اصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یاد گار اور ملت اسلامیہ کا اہم شعار ہے ۔ یوں تو دنیا کی تاریخ قربانی و جانثاری، تسلیم و خود سپردگی،اطاعت و تابعداری اور محبت و فدا کاری کے واقعات و داستان سے بھری پڑی ہے، لیکن خانوادئہ ابراہیمی کی یہ قربانی اللہ کو اتنی پسندیدہ ٹھری اور ایسی مقبول ہوئی کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے انہیں یاد گار بنا دیا، آج مسلمانان عالم انہیں اداؤں اور صورتوں کی نقل کرکے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس روش ،ڈگر ، سنت اور شعار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جاری رکھا اور یہ تسلسل اب تک امت محمدیہ علی صاحبھا و التسلیم میں قائم ہے ۔
قربانی اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں تقرب و بلندی اور مقام و مرتبہ حاصل کرنے اور جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے، قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی وجود کی تاریخ قدیم اور پرانی ہے ،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قربانی اور نذرانہ کا رواج حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے وقت ہی سے ہو چلا تھا ۔ ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی اور نذرانے کا ذکر تو تورات و انجیل کے علاوہ خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔ قربانی کا وجود کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی صورت میں ہر رسول اورنبی کے زمانہ میں ملتا ہے، اور شاید ہی کوئی قوم اور کوئی ملک ہو جہاں اس کا رواج کسی نہ کسی شکل میں نہ رہا ہو ، گو ہر عہد میں صورتیں بدلتی نظر آتی ہیں ۔ مگر اس کا رواج اب تک چلا آرہا ہے ۔
موجودہ قربانی جس کو ذی الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں ہم فرزندان توحید پیش کرتے ہیں ۔ جس کی تاریخ پھر بالکل قریب آگئی ہے ، پندرہ بیس دن کے بعد جس عبادت کو اہم ادا کریں گے ۔ یہ قربانی اس عظیم قربانی اور ذبح عظیم کی یاد گار ہے، جو آج سے پہلے اور بہت پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی تھی اور اللہ کے حکم پر اپنے اکلوتے فرزند لخت جگر اور نور نظر کے گلے پر چھری چلا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ اللہ کی محبت بیٹے کی محبت پر غالب ہے ۔ اللہ تعالٰی کو یہ ادا اتنی پسند آئی اور یہ قربانی اتنی بھائی کہ اسے قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دیا ۔
عید قرباں ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اور قابل تقلید قربانی کا یاد گاری دن ہے ،لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں نے اسے خون اور گوشت کا ایک تہوار بنا دیا ۔ اور قربانی کے مہینہ سے حج اور زیارت کعبہ کی جو اہم عبادت جڑی ہے، اسے ہم نے ایک رسمی عمل بنادیا گویا قربانی کی روح بھی ہم سے گئی اور حج اور زیارت کعبہ بھی ایک رسمی عمل رہ گیا، اس کی روح ختم ہوگئی ۔ رسم اتنی عام ہوگئی کہ دنیا کا سب سے بڑا اجتماع مکہ میں ہوتا ہے ۔ اور ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک بھی مسئلہ اس کے ذریعہ حل نہیں ہوتا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے مقرب بندوں میں تھے اور مقربین بارگاہ الہی کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ وہ نہیں ہوتا، جو عام انسانوں کے ساتھ ہے ،ان کو امتحان و آزمائش کی سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ،اور قدم قدم پر جانثاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ جلیل القدر نبی اور پیغمبر تھے، اس لئے ان کو بھی مختلف آزمائشوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا ،اور اپنی جلالت قدر اور شان و مرتبہ کے لحاظ سے ہر دفعہ امتحان و آزمائش میں کھرے نکلے اور کامل و مکمل ثابت ہوئے ۔ جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تو اس وقت صبر اور رضا بقضا ء الہی کا انہوں نے بھرپور ثبوت دیا اور جس عزم و استقلال اور استقامت و ہمت کو پیش کیا وہ انہی کا حصہ تھا ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوے تماشائے لب بام ابھی

قربانی کی دعا Qurbani Ki Dua -Dua Qurbani - Bakra Eid Qurbani

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ الله الله أَكْبَرُ
اس کے بعد جب اسمعیل اور ہاجرہ کو فاران کے بیاباں میں چھوڑنے کا حکم ملا، تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا ،آزمائش اور سخت آزمائش کا وقت تھا ۔ بڑھاپے اور پیری کی تمناؤں کے مرکز راتوں اور دنوں کی دعاؤں کے ثمر اور گھر کے چشم و چراغ اسمعیل کو صرف حکم الہی کے تعمیل و امتثال میں ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑتے ہیں اور پیچھے پھر کر بھی نہیں دیکھتے کہ مبادا ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم الہی کی تعمیل اور امر الہی کے امتثال میں کوئی لغزش ہوجائے ۔ ان دونوں آزمائشوں اور کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب ایک تیسرے امتحان اور آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں سے بھی زیادہ زہرہ گذار اور جاں گسل امتحان ہے ۔ یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام تین شب مسلسل خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے ابراہیم! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کر ۔ یہ امتحان اور یہ واقعہ شفقت پدری اور سعادت اولاد کی تاریخ میں آج تک بے مثال بنا ہوا ہے ، نبی کا خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتا ہے اس لئے باپ نے اپنے اس بیٹے کے علاوہ کسی کو مشورہ کا اہل نہیں پایا ۔ جس کی جان کا معاملہ ،اس کے فیصلے پر منحصر ہے ۔ کتنا صاف اور واضح مکالمہ ہے :
اے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو خدا کی راہ میں ذبح کر رہا ۔ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ بابا جان یہ کام آپ کو ضرور کرنا چاہیے کیونکہ خدا کا حکم ہے اس میں مشورہ کی کیا بات ہے ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔
خدا کے حکم کا سوال تھا اور خدا کی مرضی کا ،باپ نے ایک لمحہ کے لئے مشورہ کی ضرورت سمجھی ۔ لیکن بیٹے کو ایک لمحہ کے لئے بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی کہ اس نے امادگی میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ۔ سچ ہے کہ نہ ایک باپ کو رضائے الٰہی کے لئے اتنی بڑی آزمائش کبھی پیش آئی، نہ کسی لڑکے نے سعادت اور فرماں برداری کا ایسا مظاہرہ کبھی پیش کیا ۔
یہ فیضان نطر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی
لیکن سعادت و ایثار اور قربانی و جانثاری کا یہ مظاہرہ بے مثال تھا تو اس سے زیادہ بخشش و انعام اور داد و دہش بھی اس دنیا میں کسے حاصل ہوسکی،
یہ رتبئہ بلند ملا جن کو مل گیا
باپ اور بیٹا دونوں انسانی عظمت اور شرف کے اعلی مقام پر پہنچے اور اس کے سب سے بڑے ترجمان اور نمائندے تسلیم کر لئے گئے ۔ ایک نے ذبح عظیم کا خطاب حاصل کیا ،باپ نے بڑے فرماں بردار بندہ کے خطاب سے سرفرازی پائی ، ابراہیم علیہ السلام کی پوری نسل اور اسلام کے ماننے والے تمام لوگوں کو اس بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کا حکم ملا تاکہ رضائے خداوندی کے اس عظیم الشان مظاہرے کی اسپرٹ اور روح ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے ۔( مستفاد افکار و عزائم از جمیل مہدی)
لیکن افسوس کہ آج ہم قربانی تو کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شعار کو تو اپناتے ہیں ۔ لیکن ہماری یہ قربانی رسمی ہوتی ہے ۔ حقیقی قربانی نہیں، آج قربانی کا نام صرف جانور خردینا اور ذبح کرکے گوشت کھانا اور تقسیم کرنا رہ گیا ہے ۔ روح نکل گئی ۔ جسم باقی رہ گیا۔ خدا کی حاکمیت کا تصور دل سے نکل گیا اور صرف رسم و نمائش اور رواج باقی رہ گیا ۔
ایک وہ تاریخ تھی ،ایک وہ واقعہ تھا ایک وہ قربانی تھی جسے دو افراد نے مل کر جنم دیا اور ساری دنیا میں اور سارے عالم میں سعادتوں اور برکتوں کی راہ کھول دی تھی اور ایک ہماری قربانی ہے اور ہمارا واقعہ ہے جو حج اور عید قرباں کے نام سے ہر سال پیش آتا ہے، اور پوری دنیا کے کے کروڑوں افراد پر مشتمل ایک عظیم الشان قوم نکبت و زوال اور انحطاط و تنزلی کے خوفناک چکر سے نہیں نکل پاتی ۔ ایک بے عمل قوم کا جو حال اور انجام ہونا چاہیے وہ ہو رہا ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اصل اور حقیقت سے منھ موڑ لیا ہے اور رسم و رواج اور نمائش کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔
ہماری نگاہیں کب کھلیں گی ؟۔ اور ہم کب قربانی کی روح اور اسپرٹ کو زندہ کرکے ایک زندہ اور قابل تقلید قوم کب بنیں گے؟ قربانی کے ایام اور قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے ذرا ہم سب اپنا محاسبہ کرلیں اور قربانی کی روح اور اسپرٹ ہمارے اندر کیسے پیدا ہو ذرا اس کے بارے میں بھی سوچ لیں ۔
*****
خطاب جمعہ

قربانی ، تسلیم و رضا اور اطاعت ربانی کی عظیم مثال


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
عشرہ ذی الحجہ کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے،اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کو عجیب و غریب خصوصیت اور فضیلت بخشی ہے ۔ سورہ فجر میں اس عشرہ کی دس راتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے و الفجر و لیال عشر۔ اللہ تعالیٰ کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں ،لیکن کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان ایام میں سے ایک دن روزہ رکھے تو ایک روزہ کے ثواب کے اعتبار سے ایک سال کے روزوں کے برابر ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ان دس راتوں میں ایک رات کی عبادت لیلة القدر کے برابر ہے ۔ ترمذی۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کے اعمال کسی دوسرے دن میں اتنے محبوب نہیں ہیں جتنے ان دس دنوں میں محبوب ہیں ۔ حج اور قربانی اس عشرہ کی خاص دنوں کی خاص عبادت ہے، جو کسی اور ماہ اور عشرہ کے مخصوص ایام میں میں ادا نہیں کیے جاسکتے۔ ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم حاجیوں کے ساتھ ان کی مشابہت میں ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ہم ان ایام میں بال اور ناخن نہ کٹائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو قربانی کرنی ہو تو جس وقت وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اس کے بعد اس کے لیے بال کاٹنا اور ناخن کاٹنا درست نہیں ۔شریعت کا یہ حکم مستحب ہے۔
اس عشرہ میں عرفہ کا روزہ بھی ہے جس روزہ کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عرفہ کے دن کا روزہ جو شخص رکھے تو مجھے اللہ تعالٰیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اس کے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ۔ابن ماجہ لیکن یہاں گناہ سے مراد گناہ صغیرہ ہے ،کبیرہ کے لیے توبہ و استغفار شرط ہے ۔ اس عشرہ کا تیسرا عمل جو شوکت اسلام کا مظاہرہ ہے وہ تکبیر تشریق کا ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ایام تشریق میں پڑھنا ہے ،اور بقرعید کی نماز کے بعد بھی ۔یہ تکبیر تشریق اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ اس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہو ۔ عید گاہ جانے اور آنے میں بھی اس تکبیر کا پڑھنا مسنون ہے ۔
قربانی وہ عبادت ہے جس میں عقل کا عمل دخل کم ہے ،یہاں حکم خدا وندی اور اتباع الہی کا دخل زیادہ ہے، عقل کہتی ہے کہ یہ دیوانگی ہے ، بیٹے کو ذبح کرنا خلاف عقل ہے اور شریعت کہتی ہے کہ یہ عین عبادت اور وفا شعاری ہے۔
ہم جو قربانی کرتے ہیں دراصل یہ قربانی اس عظیم الشان اور معروف و مشہور واقعہ کی یاد گار ہے، جبکہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام ) نے خدا کی مرضی و خوشنودی حاصل کرنے، امتحان محبت میں پورا اترنے ،اور ابتلاء و آزمائش میں کھرا اترنے کے لئے خود اپنے صاحبزادے اور لخت جگر کے حلقوم پر چھری چلائی تھی ،اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم اور بے پایاں رحمت سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور ان کی جگہ ایک غیبی اور جنتی مینڈھا ذبح کردیا گیا۔
فدا کاری و خود سپردگی، محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال تھی کہ شاید چشم فلک نے اس سے پہلے دیکھی ہو اور نہ اس کے بعد، اسلام نے اس عبرت آمیز اور عظمت خیز واقعہ کو امت مسلمہ کے لئے ایک یادگار بنا دیا، جو ہر سال ان سے اطاعت و وفا ،تسلیم و رضا اور پاس وفا کے عہد و پیمان کی تجدید کراتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کے نقوش جاوداں کو زندہ و تابندہ کرتا ہے تاکہ اہل ایمان اور رحمن کے بندے اس شاہراہ سے ہٹنے نہ پائے اور ان کے پاوں پھسلنے نہ پائے۔
الغرض یہ قربانی اس عظیم قربانی کی یاد گار ہے جو آج سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے محبوب بیٹے کی قربانی پیش کی تھی اور یہ ثابت کیا تھا کہ اللہ کی محبت ،بیٹے کی محبت پر غالب ہے۔
صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کی حقیقت اور اس کی اصلیت اور روح معلوم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے جد امجد ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ،شعار اور ان کا طریقہ ہے اور قربانی کے جانور کے ہر بال پر تم کو نیکی ملے گی۔
یوں تو دنیا کی تمام تاریخ قربانی و جانثاری، تسلیم و خود سپردگی اور محبت و فدا کاری کے واقعات و داستان سے بھری پڑی ہے لیکن خانوادئہ ابراہیمی کی یہ قربانیاں خدائے وحدہ لاشریک کو اتنی پسندیدہ ٹھریں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے انہیں یاد گار بنا دیا ،آج مسلمان عالم انہیں اداوں اور صورتوں کی نقل کرکے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت اور شعار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جاری رکھا اور یہ تسلسل اب تک امت محمدیہ علی صاحبھا و التسلیم میں قائم ہے۔
قربانی صرف سنت ابراہیمی کی اتباع اور نقل و پیروی ہی نہیں ہے بلکہ ایک محبوب و مقبول عمل، عبادت اور تقرب الہی کا اعلی موثر ذریعہ ہے، ۔ نیز مشکلات و مصائب کے حل کا ایک کامیاب اور مفید حل بھی ہے۔
قربانی مجبور و بے کس اور معزور و مجبور انسانوں کے ساتھ ہمدردی و غمگساری اور نصرت و تعاون کا عملی مظاہرہ بھی ہے ۔ قربانی انسان کو شہرت اور دوام بھی عطا کرتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادہ کی پوری زندگی مختلف قسم کی قربانیوں سے لبریز ہے ،اسی لئے وہ جبین تاریخ پر روشن اور ان کے نقوش تابندہ ہیں۔ ( مستفاد از پیش لفظ مولانا رحمت اللہ ندوی/ کتاب قربانی و عقیقہ کے شرعی احکام مولفہ از راقم الحروف )
آج جو ہم مسلمان قربانی کرتے ہیں اور ہفتہ عشرہ کے بعد پھر جو ایام قربانی کے آرہے ہیں وہ در اصل اسی سنت ابراہیمی کا امتداد ہے جس کی اصل روح اور حقیقی مقصود تقوی ہے اور اس کا پیغام تمام مسلمانوں کے نام یہ ہے کہ وہ اس سنت پر کار بند ہوکر خوش دلی سے اپنے رب کے حضور قربانی پیش کریں کیونکہ اس سے قوموں کو عروج و ترقی اور اقبال و دوام ملتا ہے اور ساتھ ہی بندگی کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔
خدا کرے کہ ہم قربانی کی اہمیت اور اس کی روح کو سمجھیں اور جس موڑ اور جس موقع پر ہم سے جس طرح کی قربانی چاہی اور مانگی جائے بے چوں و چرا ہم اس کے لئے تیار ہوجائیں۔
قربانی کا حقیقی پیغام یہ ہے کہ قربانی، ہمیں جوش فدا کاری کا اور ایثار و خود سپردگی کا درس دیتا ہے اس پر عمل کرنے کا وقت اسی وقت سے شروع ہوگیا جس وقت ہم نے جانور کے گردن پر چھری چلا کر یہ عہد لیا کہ بار الہا !
جس طرح ہم نے اس جانور کی گردن پر تیرے حکم سے اور تیرے نام پر چھری چلائ ہے اسی طرح ہم اپنی نفسانی خواہشات، من چاہی زندگی اور حرص و ہوس والے جذبات و خواہشات پر بھی چھری چلاتے ہیں۔
عید قرباں یا عید الاضحی حضرت ابراہیم خلیل اللہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہر قربانی کے لئے ہمہ وقت آمادگی کا جذبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال سنت اور اس انوکھے عمل کی یاد دلاتا ہے جب آپ علیہ السلام نےاپنے نور نظر لخت جگر چہیتے اور بے حد فرمانبردار بیٹے کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی طرف سے قربان کر ڈالا تھا اور اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کر دکھایا تھا جس کو پورا کرنا ہمہ شمہ اور بڑے سے بڑے کے بس میں نہیں تھا اور نہ ہے۔
اللہ تعالٰی اپنے برگزیدہ بندوں سے ان کو نکھارنے سنوارے اور ان کے مقام کو بلند کرنے کے لیا بڑی قربانی لیتا اور چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے خاص پر اپنے نبیوں اور رسولوں سے بڑی بڑی قربانیاں لیں اور پھر ان کے مقام کو بلند و بالا کیا ۔ اس قربانی کی فہرست کو الٹا جائے تو سب سے بڑی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر اتی ہے تاریخ میں کوئ بھی قربانی اس کے مماثل اور برابر کی نہیں ہو سکتی۔
قدرت نے بڑھاپے میں حضرت ابراہیم کا عجیب و غریب اور انوکھا امتحان لیا جو بظاہر عقل انسانی سے ماورا ہے ۔ جس امتحان میں باپ اور بیٹے دونوں کامیاب ہوئے ۔ بڑھاپے میں ملنے والے لاڈلے اور چہیتے لخت جگر اور نور نظر کو ایک اشارے پر ذبح کے لئے لٹا دینا تسلیم و رضا کے پیکر اور استقامت کے پہاڑ اور ہمت کے دھنی وقت کے پیغمبر کا ہی جذبہ اور حوصلہ ہو سکتا ہے ۔ چشم فلک نے تاریخ انسانی کے کسی دور میں ایسا نظارہ نہ دیکھا ہوگا ۔ اس عظیم امتحان و آزمائش اور مشکل ترین امتحانات میں کامیابی کے بعد اللہ تعالی نے ان کو خلیل اللہ کے لقب سے ملقب کیا اور یہ شرف اور طمغہ ان کو اس عظیم اور بے نظیر و بے مثال قربانی کے بعد ملا ۔ قرآن مجید نے اس امت کو حکم دیا کہ حضرت ابراہیم کی اور ان کی ملت اور ان کے اسوہ کی پیروی کرو جو کہ حنیف ہیں۔
اس طرح اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اس یاد گار کو اور ان کے اس شعار و طریقہ کی پیروی کو اس امت پر لازم کر دیا۔
ایک موقع پر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے یہ سوال کیا کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی سنت اور شعار ہے ۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔
پتہ یہ چلا کہ قربانی کی غرض و غایت اور اس کا مقصد صرف ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ قربانی ایک سہہ روزہ دینی اخلاقی اور تربیتی ٹریننگ اور ورک شاف ہے جو ہمیں ماہ و گردش کے ہر سال تسلیم و رضا،خود سپردگی و خاکساری اور قربانی کے ان جذبات سے آشانا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج اور اسلام کی کمال ہیں۔ آداب فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن پر بغیر کسی ڈر اور خوف اور تردد و لیت لعل کے اللہ تعالی کے حکم کے عملی نفاذ کے لئے پیش کردی۔
یہ فیضان نطر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی

ایک ماں نے برسوں کی دعاؤں آرزوؤں تمناؤں خواہشوں التجاوں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور نظر کو بلند حوصلے اور عظیم جذبے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو ہے کہ حق ادا نہ ہوا

قربانی کا یہ مبارک عمل اور یہ مبارک ایام اور دن ہمیں یہ پیغام دے گیا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کائنات کی ہر شئ چاہئے اولاد ہو یا کوئ عزیز مال ہو یا جائداد عہدہ ہو منصب اقتدار ہو یا کرسی ان سب کی حیثیت خدا کے مقابلے میں پر کاہ کے برابر بھی نہ ہو ۔ ان سب کی محبت دل سے نکل جائے اور اللہ کی رضا ان تمام پر غالب آجائے ۔ اسی نظریے کی بنیاد پر قربانی کو اس امت پر ضروری اور لازم کیا گیا ہے کہ اپنے مال و متاع اور خواہش پرستی پر اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے چھری چلا دی جائے ۔ اور ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ جب بھی موقع آئے گا جہاں ہم کو اپنی جان مال خواہشات یہاں تک کہ آل و اولاد کو بھی راہ خدا میں پیش اور نثار و قربان کرنا پڑے تو ہمارے پاوں پیچھے نہ ہٹے۔ نسل ابراہیمی کے روشن چراغ اور خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے رکن رکین اور فرد فرید حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی تو میدان کربلا میں اسی جذبہ کا تو عملی مظاہرہ کیا تھا اور اپنی قیمتی جان کو شریعت محمدی کی پاسبانی اور پیارے نانا جان کی سنت اور طریقہ کی حفاظت و تحفظ میں اپنا ہرا بھرا گردن قربان کردیا اور راہ خدا لٹا دیا۔ علامہ اقبال مرحوم نے اس دوسری عظیم قربانی کو پہلی بے مثال قربانی کا اتمام اور حجت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسمعیل

ضرورت ہے کہ ہم قربانی کی اس روح اور پیام و پیغام کو سمجھیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و عبرت سے نفع اٹھائیں اور زندگی کے جس موڑ پر ہم سے جیسی قربانی مانگی اور چاہی جائے ہم اس کے لئے اپنے کو تیار رکھیں۔

Read More اور پڑھیں

قربانی ہدیۂ تشکر اور گُناہوں کی بخشش کا ذریعہ ۔ قربانی کرنے کا طریقہ

قربانی کے اہم فضائل و مسائل Qurbani Bakrid Ke Aham Fazail Aur Masail

قربانی اور ذی الحجہ کے فضائل و برکات احادیث مبارکہ کی روشنی میں Qurbani

سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی، عید الاضحی کی فضیلت، احکام قربانی

نیک بیوی سب سے حسین، نیک بیوی یا عورت کی پہچان اہمیت، بیوی کی عظمت

اللہ کی آغوش میں ہی آزادی ہے-Freedom is in the arms of Allah

دوسروں کی رازداری کا احترام کیجئے - رازداری کے اصول Respect The Privacy Of Others

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ