Ticker

6/recent/ticker-posts

سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی، عید الاضحی کی فضیلت، احکام قربانی

عید الاضحی مضمون، قربانی کی اہمیت و فضیلت، قربانی کا حکم کب نازل ہوا

سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

ذیقعدہ کی آخری تاریخ جب سورج دن بھر کی روشنی سمیٹ رہا تھا، اور دھیرے دھیرے غروب کی اور بڑھ رہا، تھا افق پر زردی چھا چکی تھی، اندھیرے دھیرے دھیرے اپنا سایہ ڈال رہے تھے، ستارے اپنی جگمگاہٹ لۓ نکلنے کو بیتاب تھے، ادھر لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہوکر گھر کی راہ لے رہے تھے ، اور بچے مارے خوشی کے بلند ٹیلوں پر، اونچی عمارتوں پر ، گھر کے چھتوں پر چڑھے جارہے تھے کیوں کہ نیا مہتاب طلوع ہونے والا تھا دنیاے انسانیت ایک نۓ چاند کا استقبال کرنے جارہی تھی جن کا سال بھر سے ان کو انتظار تھا۔

”جی ہاں “ عید الاضحی کا مہینہ شروع ہورہا تھا جو سراسر ابتلا۶ و آزمائش کا مہینہ ہے ، جو خواہشات کو تج دینے کا مہینہ ہے، ادھر ایک شور سنائی دی کہ ”ہوگیا چاند “چاند نظر آگیا میں بھاگا بھاگا وہاں پہنچا اور چاند دیکھنے لگا جیسے ہی چاند پر نظر پڑی بے ساختہ زبان پر یہ دعا جاری ہوگی(اللھم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامہ والاسلام ربی وربک اللہ ) چاند نے اس دلدوز واقعہ کی یاد تازہ کردی جوایک باپ اور بیٹے پر مشتمل ہے اورکیوں نہ ہو دنیا میں ایسا کہاں کبھی ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی گردن میں چھری رکھ دے اور اپنی فدا کاری کا ثبوت پیش کرے اور وہ بھی جو بڑھاپے کا سہارا تھا، جس کو بڑی دعاؤں کے بعد حاصل کیا گیا تھا ،اور جس سے بڑھاپے کا سہارا ملنے والا تھا ،اور ایسے میں اس کو مانگا گیا تھا جب باپ کو بڑھاپے کا احساس ہوچلا تھا، اور بے سہارگی کی فکر دامن گیر تھی، بڑی آرزوئوں کے بعد ملا بھی تو آزمائشوں نے آکر گھیر لیا، پہلی آزمائش یہ ہوئی کہ اسے چٹیل میدان جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی نہ انسان کے قدم پہنچتے ہوں وہاں چھوڑ آے اس امتحان میں کامیاب ہوے تو اب ایسی آزمائش میں ڈال دۓ گۓ جس آزمائش کا دنیا میں کسی نے سامنا ہی نہیں کیا تھا، امتحانات تو بہت لئے گئے مگر خلیل اللہ جیسا کسی سے نہیں لیا گیا ،چنانچہ خدا کا حکم آ پہنچا کہ اپنے اس بڑھاپے کے سہارے کو قربان کر دو حکم سن کر نہ جانے اس باپ کا دل کیسے تڑپ رہا ہوگا، جگر کانپ رہا ہوگا ،بدن لرز اٹھا ہوگا، لیکن شہنشاہ کا حکم تھا کوئی چارہ بھی نہیں تھا، در اصل یہی اصل قربانی کی روح تھی ابراہیم اپنی تمام تمناوں آرزوئوں اور ہر قسم کے خواہشات کو چھوڑ کر اس بزرگ و برتر کے حکم کے تابع ہو جاے، جب اس بوڑھے باپ نے اپنے سہارے کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو اس سچے اور نیک صالح نے اطاعت شعاری اور فدا کاری کا جو نمونہ پیش کیا وہ دنیا کے کسی تاریخ میں ملنا مشکل ہے، باپ بیٹے کا ہاتھ تھامے بغل میں چھری دباے قربان گاہ کی طرف جارہے ہیں اور بیٹا راضی برضا خوشی خوشی دنیا کو فداکاری کی تعلیم دیتے ہوے اطاعت کا طریقہ سکھلاتے ہوے اور حکم خدا وندی میں سرتسلیم خم کرنے کی تعلیم دیتے ہوے باپ کی اطاعت و وفاداری کا سلیقہ سکھلاتے ہوے قدم بڑھا رہے ہیں کیسا عجیب منظر ہوگا دنیا نے ایسا ماجرا کبھی نہ دیکھا تھا نہ آسمان نے مشاہدہ کیا تھا زمین کا ذرہ ذرہ محو حیرت تھا کہ یہ کیسا امتحان ہے ؟ ہر طرف سے صدائیں آرہی ہوں گی کہ ابراہیم یہ کیا کرنے جارہے ہو، اس سہارے کو کہاں لیکر چلے ہو، لیکن وہ اس صدا پر کان دھرنے والے کہاں تھے، ان کے اندر تو جذبہ ایثار اور خدای حکم کو بجالانے کا جذبہ کار فرما تھا ،آخر کار اس امتحان میں بھی وہ کامیاب ہوگۓ،

عید الاضحی کی فضیلت

eid-al-adha-qurbani-tareekh-fazail-aur-masail-urdu

قربانی کی فضیلت، عید الاضحی کی اہمیت

یہ ایک واقعہ تھا جس کو ضبط تحریر میں لانا اور زبان سے ادا کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اس واقعہ سے جو پیغام ملتا ہے اور اس قربانی کا جو مقصد ہے اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے ، اس واقعہ کے ظاہری سطر پر تو بہت ذوق و شوق سے عمل ہوتا ہے اور ہوتا آرہا ہے لیکن اس کے باطنی تقاضوں اوراصل قربانی کی روح پر جو عمل ہونا چاہۓ تھا وہ مفقود ہے اس کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام تر خواہشوں اور تمنّاؤں کو خدا کی اطاعت و بندگی کیلۓ وقف کردے اور خالص اللہ کے حکم کے تابعدار بن جاے، قدرت کا امت محمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے قربانی میں بندوں کی فطرت کا اور انسانی طبع کا پورا پورا خیال رکھا ہے کہ بندہ مال کی قربانی کے ساتھ ساتھ اس سے فطری طور پر فائدہ بھی اٹھاے، اس لۓ اس امت محمدیہ کیلۓ قربانی کے گوشت کو کھانے کی اجازت دے دی گئی، ورنہ پچھلی امتوں کا حال یہ تھا کہ قربانی کرنے کے بعد گوشت کو جنگل میں ڈال دیا جاتا اور پھر آگ آکر اسے راکھ کر دیتی اور یہی اس کی قبولیت کی علامت ہوا کرتی تھی، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو غیر مقبولیت کی علامت ہوتی غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر آج کے دور میں یہ سب کچھ ہوتا تو پورا پردہ فاش ہوجاتا لیکن اللہ نے اس امت کو اس سے بچا لیا، اس لۓ ہر قربانی کرنے والے شخص کو مخلص ہونا چاہۓ اور محض اللہ کی رضا و خوشنودی کیلۓ اور سنت ابراہیم سمجھ کر قربانی کرنی چاہۓ ریا کاری دکھلا وا بالکل نہ ہو کیوں کہ خدا کے یہاں گوشت پوشت کی کوی حیثیت نہیں بلکہ وہ تو خلوص اور اخلاص کو دیکھتا ہے جیسا کہ سورہ ”الحج “میں اشارہ کیا گیا ہے “ اور ایک حدیث میں بھی وارد ہوا ہے کہ بندہ کا وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جسمیں خلوص ہو اس لۓ ہم پر ضروری ہے چونکہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار منا رہے ہیں تو ومیں اسی جذبہ کے ساتھ اور اسی فداکاری کے ساتھ اور اسماعیل کی جذبہ اطاعت اور اس کی خود سپردگی کو ملحوظ رکھتے ہوے قربانی کرنی چاہۓ ،

یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی،

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ