Ticker

6/recent/ticker-posts

ایثار و قربانی کی لازوال یاد گار : عید الاضحیٰ، قربانی ایک اہم ترین عبادت ہے

ایثار و قربانی کی لازوال یاد گار : عید الاضحیٰ، خطاب جمعہ

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام،کنڈہ،پرتاپ گڑھ

قربانی ایک اہم ترین عبادت ہے، اسلام کا ایک اہم شعار اور سنت ہے ،قرآن کریم میں بھی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،ارشاد خداوندی ہے ۔ پس اپنے رب کے واسطے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیئے۔

سورہ کوثر

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے ؟ یعنی قربانی کی حیثیت اور اس کی تاریخ کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آگے سوال کیا کہ اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔

مسند احمد

حج کی طرح قربانی بھی درحقیقت حضرت ابرہیم علیہ السلام کی یاد گار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو سخت ترین آزمائشوں میں ڈالا مگر ان سب آزمائشوں میں وہ پورے طور کھرے اترے اور مکمل کامیاب و کامران ہوئے ۔خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،اور جب ابرہیم کو ان کے پرور دگار نے کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کیں ۔ وہ تمام امتحانات اور آزمائشوں میں کامیاب ہوگئے۔

سورہ بقرہ

اصل میں قدرت کا ہمیشہ سے یہ نظام اور قانون رہا ہے کہ کسی اہم اور بامقصد چیز کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ،بغیر قربانی دیے وہ چیز حاصل نہیں کی جاسکتی ہے، حضرت ابرہیم علیہ السلام نے جب قربانیاں دیں اور تمام آزمائشوں اور امتحانات میں کھرے اور پورے اترے ،تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا دوست بنا لیا اور ان کا لقب ہی خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست ہوگیا ۔ جس کی طرف قرآن مجید میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

انہیں آزمائشوں میں سے ایک کڑی آزمائش بیٹے کی قربانی تھی ،انسان ہر طرح کی آزمائشوں کو پورا کرسکتا ہے ،ہر طرح کی قربانیاں دے سکتا ہے، مگر جہاں اپنے بیوی بچوں کو قربان کرنے کا معاملہ آجائے ،وہاں بہادر سے بہادر انسان کے قدم بھی ڈگمانے لگتے ہیں ، مگر اس میدان میں بھی حضرت ابرہیم علیہ السلام مکمل کامیاب نظر آتے ہیں۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی عمر کافی ہوچکی ہے سو کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ،ہزار تمناؤں آرزوؤں اور دعاؤں کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کو ایک لڑکا حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا کیا ، مگر قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بارہ تیرہ سال کے ہوگئے ،تو اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ ابراہیم اپنے بیٹے اسماعیل کو میرے نام پر قربان کردو اور دیکھو یہ کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دینا ۔ ذرا غور کیجئے اور سوچئے کہ یہ کتنی سخت آزمائش اور کتنا سخت امتحان تھا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حکم عین اس وقت ملا جب اسماعیل علیہ السلام اپنے بوڑھے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا سہارا بننے والے تھے ،پھر یہ حکم خواب میں ملا اگر اور کوئی اور ہوتا تو حیلے بہانے کرتا کہ ارے یہ تو خواب کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ہے ، ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتہ کو نہیں بھیجا حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو کسی فرشتہ کو بھیج کر یہ حکم دے سکتے تھے ۔یہ ساری چیزیں اس لیے ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آزمانا چاہتے تھے کہ دیکھیں ہمارا بندہ ابراہیم اتنے سخت امتحان میں کیا کرتا ہے ؟ لیکن ابرہیم علیہ السلام تو اللہ تعالیٰ کے عظیم اور مقرب پیغمبر تھے۔ جب ان کو خواب میں حکم ملا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور فرمان ہے ،کیوں کہ نبی اور رسول کا خواب بھی وحی، یعنی خدائی حکم ہوتا ہے ، اس میں ،، نا ،،کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔پھر ان کو حیلے بہانے کرنا کب گوارا تھا، وہ تو اپنی ساری محبتوں کو اللہ کے نام پر قربان کر دینے والے تھے ،اور جانتے تھے کہ ہمیں جو کچھ حکم ملا ہے وہ سب اللہ کی کا دیا ہوا ہے اور جب وہ اس کو واپس مانگے ،تو اس میں بہانے کی کوئی صورت نہیں رہ جاتی ۔ انہوں نے فورا اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے پیارے بیٹے ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں خود اپنے ہاتھ سے تجھے ذبح کر رہا ہوں تو تمہاری اس بابت کیا رائے ہے ؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب یہ سنا تو وہ اللہ تعالیٰ کا منشا اور مراد سمجھ گئے ،انہوں نے وہی جواب دیا جو ایک عظیم پیغمبر کے بیٹے اور آئندہ ہونے والے نبی کو دینا چاہیے تھا ،انہوں نے کہا : ابا جان ! جو حکم ہوا ہے اس کو آپ ضرور پورا کیجیے ،ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سےپائیں گے ۔

eid-ul-adha-qurbani-ki-yadgar-bakrid
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائےکس نے اسمعیل کو آداب فرزندی

پھر جب وہ دونوں تیار ہوگئے ،اور حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کو لٹا کر چھری چلانی شروع کی، تو وہ چھری حضرت ابرہیم علیہ السلام کی بہت کوشش کے باوجود نہیں چلی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبح ہوں بلکہ صرف حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آزمانا اور ان کا امتحان لینا مقصود تھا ،اللہ تعالیٰ نے فوراً آواز دی کہ بس کرو ابراہیم ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ،اور ہمارے حکم کے آگے اپنی گردن جھکا دی۔

جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اللہ تعالیٰ نے ایک جنتی جانور بھیجا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس کو قربان کردیا گیا ۔ یہ قربانی جو ہم اور آپ قربانی کے ایام میں کرتے ہیں، یہ اسی عظیم قربانی کی یاد گار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابرہیم علیہ السلام کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے صاحب نصاب مسلمانوں پر اس دن قربانی کرنا واجب قرار دے دیا ۔ جب ہم قربانی کرتے ہیں، تو گویا اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جس طرح حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکا دیا ،ہم بھی ہر وقت اور زندگی کے ہر موڑ پر اللہ تعالٰی کے سارے حکموں کے سامنے اپنا سر جھکانے کے لیے تیار ہیں ،اسی جذبہ کے ساتھ ہمیں اور آپ کو اور ہر شخص کو قربانی کرنی چاہیے ۔۔ (مستفاد خطبات جمعہ )

غرض یہی قربانی جو سنت ابراہیمی ہے ،آج تک مسلمانوں کے دینی ذوق و جذبہ کی رہنمائی کررہی ہے ۔

قربانی جس رسم،شعار اور عبادت کو ہم سب انجام دیتے ہیں یہ تقرب الٰہی کی ایک علامت ہے ،جس میں ایک مومن اور مسلمان بندہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آگے سر جھکانے اور اس کے حکم پر نفس کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے ۔ اس لئے جب تک خوف خدا اور خشیت نہ ہو اور اللہ کی مرضی پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ نہ ہو، اس وقت تک ہماری یہ قربانی قبول نہیں ہوتی ،رسم ادا ہوسکتی ہے سنت ادا نہیں ہوتی ۔ارشاد ربانی ہے ، جانور کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا مگر اسے تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔

اس لئے حکم ہے کہ قربانی کرنے والا عید الاضحیٰ کی نماز ادا کرے ،یہی سنت رسول ہے ، اور پھر قربانی کی سنت ادا کرے، قربانی کرنے والے کو اپنے دل کی کیفیت پر اور جانوروں کی صحت پر نظر رکھنی چاہیے ، دل میں تقویٰ ،خوف خدا اور اللہ تعالیٰ کا لحاظ ہو اور جانور بھی صحت مند ہو مومن دینی و اخلاقی عیب سے پاک ہو اور جانور جسمانی عیب سے پاک ہو ۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہماری قربانی قبول ہو جائے گی اور ہمیں اس عبادت کا ثواب اور اجر و انعام مل جائے گا۔

ہم سب کو عید الاضحیٰ کے موقع پر اس ابراہیمی شعار کو ادا کرنے سے کیا سبق ملتا ہے؟ اس پر خوب غور کرنا چاہیے ،کیا صرف جانور کے ذبح کرنے سے ہماری قربانی ادا ہو جائے گی یا کچھ اور کرنے کی اور قربانی دینے کی ضرورت ہے ؟ جانور کی قربانی تو ظاہری اور علامتی قربانی ہے، اصل یہ ہے کہ ہمارا مزاج قربانی والا بن جائے۔ ہم اپنی خواہشات اور مفادات کی قربانی پیش کرنے والے بن جائیں ۔ عہدہ منصب اور مال و دولت کی حرص کو اپنے اندر سے نکال دیں ۔۔ خدا کرے کہ قربانی کی اس حقیقت اور پیغام کو ہم سمجھ لیں اور اس پر عمل کرنا شروع کردیں ۔

Read More اور پڑھیں

فلسفہ قربانی - تقویٰ گزاری اور حُبِ الٰہی Qurbani Ki Hikmat O Falsfa

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ