Ticker

6/recent/ticker-posts

فلسفہ قربانی - تقویٰ گزاری اور حُبِ الٰہی Qurbani Ki Hikmat O Falsfa

فلسفہ قربانی - تقویٰ گزاری اور حُبِ الٰہی

(عابد حسین راتھر)
اسلامی سال کا قمری کیلنڈر محرم الحرام کے مہینے سے شروع ہوتا ہے اور اسکا آخری مہینہ ذالحجہ پر ختم ہوتا ہے۔ جب ہم تواریخ پر نظر ثانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مہینوں میں عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں مہینوں میں قربانی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کربلا کے میدان میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پوتے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام کی سربلندی کے لیے باطل سے لڑ کر اپنے جانوں کی قربانی دے دی۔ اُنہوں نےاسلام کی شان اور اسلام کے حقیقی روپ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے جان اللہ کی راہ میں نچھاور کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کی سر بلندی کے لیے ہمیں ہمیشہ اپنے جان و مال کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور رہتی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ اسی طرح ذالحجہ کے آخری مہینے میں اللہ کی رضامندی اور اللہ کی خوشنودی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے سب سے قیمتی اور پیارے سرمایہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم الٰہی ملا تو آپ فوراً بےججھک اور بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنے بیٹے کو اللہ کی رضامندی کے لیے قربان کرنے کیلئے تیار ہوئے۔ اس واقع کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
"پھر جب وہ ( بچہ ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے ، تو اس ( ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا کہ میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے" ( القران 37:102)
یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قبول فرمائی اور حُکم الٰہی کے تحت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جنت سے لائے گئے ایک دنبہ کی قربانی عمل میں لائی گئی۔ ان دونوں واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہمیں یہی ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری زندگی کا بنیادی مقصد اللہ کی خوشنودی اور اللہ کی رضامندی ہونا چاہیے۔ ہمیں اللہ کے حکم کے سامنے ہمیشہ سر بسجود ہونا چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے سامنے بنا کسی سوال و جواب کے قربان کرنا چاہیے۔ 'اسلام' ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہے جھکنا یا سر تسلیم خم کرنا، لہذا اس لفظ سے ہی اسلام کا بنیادی نظریہ بلکل صاف ہوجاتا ہے اور وہ نظریہ یہ ہے کہ ایک سچا اور حقیقی مسلمان ہمیشہ اللہ کے فیصلے کو تسلیم اور اللہ کی مرضی کے سامنے اپنی خواہشات کو قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ عیدالاضحٰی کی قربانی ہمیں ہر سال اسلام کے اس بنیادی نظریئے کی یاد دہانی کراتی ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کا حکم ملا تو آپ بنا کسی بحث و مباحثہ کے اپنے بیٹے کی پرواہ کیے بغیر صالح اور نیک نیّتی کے ساتھ قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔

اسلامی تواریخ میں قربانی کا حکم

اسلامی تواریخ میں قربانی کا حکم سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کو ملا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک مسئلہ سلجھانے کے لئے اللہ کی مرضی کے مطابق قربانی کرنے کا حکم دیا تو ہابیل، جو کہ ایک چرواہا تھا، نے نیک نیتی کے ساتھ اپنا ایک صحتمند اور پیارا جانور اللہ کی راہ میں قربان کیا جب کہ قابیل، جو کھیتی باڈی کا کام کرتا تھا، نے بے غرضی اور نا خوشی کے ساتھ اپنی کھیت سے تیار کردہ فصل کا ایک چھوٹا سا حصہ اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول فرمائی کیونکہ اسکی نیّت میں خلوص اور دل میں تقویٰ تھا اور قابیل کی قربانی کو مسترد کیا گیا کیونکہ اُسکی نیّت میں اخلاص نہیں تھا اور اللہ تعالی کو اس بات کا اچھے سے علم تھا۔ ہابیل نے اپنے بھائی کو سمجھایا کہ اللہ اُن لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے جن کی نیّت میں خلوص اور دل میں تقویٰ ہو۔ اس واقعہ سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ قربانی کی قبولت کے لیئے نیّت میں اخلاص اور دل میں تقویٰ ہونا اولین شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کی طرح قربانی کے جانور کے گوشت، خون یا پوست کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ قربانی کے مقصد کی روح تقویٰ گزاری، وفاداری، پرہیزگاری اور پارسائی میں پوشیدہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے،

اللہ تعالٰی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے

"اللہ تعالٰی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے توتمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے " ( القران 22:37)
قربانی اصل میں ایک روحانی عبادت ہے جو قربت الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ جانوروں کی قربانی ایک ظاہری رسم ہے لیکن اس کا پوشیدہ پیغام یہی ہے کہ ایک سچے مسلمان کو اللہ کی رضا کے لیے ہر وقت اپنی تمام خواہشات قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اس کے دل میں حبِ الٰہی دنیا کی ہر چیز کی محبت سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ اُس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا غرض زندگی کا ہر ایک کام رضائے الہٰی کے لیے ہو۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہو۔ لیکن بد قسمتی سے ہم لوگوں نے صرف قربانی کے رسم کو پکڑ کے رکھا اور اسکا حقیقی پیغام بھول گئے۔ ہم لوگ دفاتر میں رشوت لے کر، ناجائز منافع خوری اور حرام طریقوں سے دولت کما کر قربانی کرنے کا بندوبست کرتے ہیں اور پھر اللہ کی بارگاہ میں اپنی قربانی کی قبولیت کی توقع رکھتے ہیں۔ جب حبِ الٰہی ایک مسلمان کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو پھر کہاں ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنے۔ عشق الٰہی قربانی کا بنیادی مقصد ہے اور ایک سچے مسلمان کے دل میں عشق الٰہی ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی محبت اور تابعداری کا ثبوت دینا پڑا تو آپ غیر مشروط طور پر اللہ کی مرضی کے سامنے جھک گئے اور بنا کسی پرواہ کے اپنے خاندان اور اپنے پیارے بیٹے کی محبت سے بڑھ کر اللہ کی رضا اور عشق الٰہی کو فوقیت دے دی۔ آپ اللّٰہ کی رضا کے لیے ہر حال میں تیار تھے چاہے اس کے لیے آپ کو اپنے بیٹے کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑتی۔ لہذا عید الاضحٰی ہمیں جانوروں کی قربانی سے بڑھ کر تابعداری، پرہیزگاری، وفاداری اور تقویٰ گزاری کا درس دیتی ہے۔
زمانہ قدیم سے ہی خاص طور پر مغربی ممالک میں عیسائیوں اور باقی غیر مسلموں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ پر اور قربانی کے عمل پر بہت تنقید کی گئی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو ایک پدرانہ ظالمیت اور بے رحمی کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ کچھ مغربی دانشوروں کے مطابق ابراھیم علیہ السلام کو ایک خواب کے بجائے اخلاقی اور انسانی حواس پر زیادہ یقین کرنا چاہیے تھا اور اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے ظالمانہ فیصلے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح سے اُنہوں نے انسان ادراکِ حواس اور استدلال کو حبِ الٰہی اور ایمانِ بالغیب پر فوقیت دی ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو اُن کے تمام دلائل اور مباحثات مادیت پرستی، کفریہ اور باطل سوچ پر مبنی ہے جو اسلام کے بنیادی عقیدے سے ٹکراتے ہے جہاں پر ایک مسلمان کو بنا کسی سوچ يا مباحثے کے حکم الٰہی کے سامنے سرخم تسلیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اپنی انسانی خواہشات کو رضائے الٰہی کے لیے قربان کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قربانی کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ جب کبھی بھی ایک مسلمان کی کوئی انسانی خواہش اللّٰہ تعالٰی کے فیصلے یا اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکرائے تو اس وقت اُسکو چاہیے کہ وہ خوشی سے اپنی خواہشات کی قربانی دے کر اللّٰہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی تعمیل کرے اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر پابند رہے۔ ایک مسلمان کو اس بات پر عین اليقین ہونا چاہیے کہ انسان کے محدود علم کی وجہ سے کبھی کبھار اسکو اللہ کے جو فیصلے بظاھر غلط لگتے ہے حقیقت میں وہ غلط نہیں ہوتے بلکہ انسان کی بہتری کے لیے ہوتے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قربانیاں کبھی بھی رائیگاں ہونے نہیں دیتا ہے بلکہ اُنکو اُنکی قربانیوں کا حق سے زیادہ اجر دیتا ہے۔ اختتام میں ہم یہی کہہ سکتے ہے کہ عیدِ قربانی ہمیں اللہ کی رضا اور اُسکی خوشنودی کے لئے حُب دنیا، نفرت، نفسانی خواہشات، حسد، غرور، گھمنڈ، دنیاوی لالچ، بُغض، کینہ جیسے باقی عناصر کی قربانی کا درس دیتی ہے اور یہی قربانی کا بنیادی فلسفہ ہے۔
فلسفہ قربانی - تقویٰ گزاری اور حُبِ الٰہی Qurbani Ki Hikmat O Falsfa
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
Read More اور پڑھیں

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ