Ticker

6/recent/ticker-posts

امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے

 عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے | مولانا محمد ولی رحمانی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے

آہ امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب  کی رحلت کی خبر ابھی ابھی سوشل میڈیا کے توسط سے ملی،سب پہلے مولوی عبد الستار اصلاحی کا فون آیا کہ حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی  کا انتقال ہوگیا۔ دل دھک سے ہوگیا، کچھ دیر کے لیے جسم منجمد سا ہوگیا اور ایک طرح سے سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور محسوس ہونے لگا کہ دل و دماغ حاضر نہیں ہے۔ زبان پر بے ساختہ یہ شعر آیا کہ۔۔۔۔
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا  ہو گیا ہے

حضرت امیر شریعت مولانا رحمانی صاحب یقینا اسم بامسمٰی تھے


حضرت امیر شریعت مولانا رحمانی صاحب یقینا اسم بامسمٰی تھے، میں نے اپنی زندگی میں جن چند بارعب، باکمال، جری اور حق گو وبے باک علماء اور اہل علم کو دیکھا ان میں وہ سر فہرست تھے۔ ہمت و شجاعت کے دھنی تھے، صداقت و بے باکی ان کی خمیر میں داخل تھی، وہ لگی لپٹی بات کہنے کے قائل نہیں تھے، بڑے بڑے وزراء اور نیتا لوگوں کے سامنے پوری ہمت کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے۔ مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ  پٹنہ کے صد سالہ اجلاس میں بھرے مجمع میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار جی کو کھری کھری سنا دیا تھا، ہزاروں لوگ اس کے گواہ ہیں۔ وہ یقینا اس شعر کے مصداق تھے۔۔

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رو باہی

ان کا شعار اور ہدف اور پیغام واضح رہتا

وہ جہاں رہتے اور جس مجلس میں رہتے، ان کا شعار اور ہدف اور پیغام واضح رہتا دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے کسی طرح کی گھبراہٹ اور خوف ان پر نہیں رہتا وہ اس سلسلے میں اپنے والد ماجد مولانا محمد منت اللہ رحمانی رح کے نقش قدم پر تھے اور الولد سر لابیہ کے مصداق تھے۔ یعنی باپ کے پرتو اور نقش جمیل تھے۔۔ ان کا پیغام تھا۔

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مولانا بیک وقت کئی مرکزی عہدے پر فائز تھے

مولانا بیک وقت کئی مرکزی عہدے پر فائز تھے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری جنرل، امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور سرپرست اور رحمانی ٹھرٹی کے ذمہ دار اعلی۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی ذمہ داریاں تھیں آپ کے سر پر۔۔۔
آپ مولانا محمد علی مونگیری رح کے پوتے تھے اور مولانا محمد منت اللہ رحمانی رح کے صاحب زادے تھے۔
آپ سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے، آپ کا خاندان عراق سے ہندوستان منتقل ہوا۔۔ آپ کے دادا جان ندوہ کے بانی مبانی تھے اور ندوہ کا تخیل سب سے پہلے انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔
آپ کی پیدائش ۱۹۴۲/یا ۱۹۴۳ء میں مونگیر میں ہوئی۔۔۔ تربیت اعلی دینی ماحول میں ہوئی۔۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم خانقاہ مونگیر میں ہوئی، عالمیت تک کی تعلیم ندوہ العلماء لکھنؤ میں ہوئی اور ازہر ہند دار العلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی۔خانقاہ رحمانی مونگیر میں تدریسی خدمت پر مامور ہوئے بڑے بڑے علماء آپ کے شاگردوں میں ہیں، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا شعیب رحمانی مرحوم آپ کے نمایاں شاگردوں میں ہیں۔
اللہ تعالی نے آپ کو صورت و سیرت اور علم و عمل کا جامع بنایا تھا۔ جس مجلس میں ہوتے اپنی صلاحیت قابلیت اور نقاہت و ثقافت و نقاہت کے اعتبار سے چھا جاتے تھے۔
سیاسی بصیرت سے بھی اللہ تعالی نے خوب نوازا تھا۔۔ علمی، دینی ملی سیاسی اور سماجی کاموں میں آپ کے جو کارہائے نمایاں ہیں ان کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
آپ مسلسل چوبیس سال ایم ایل سی رہے ۱۹۷۲ء سے ۱۹۹۲ء تک۔۔ سیاسی میدان میں بھی آپ کو زبردست صلاحیت تھی۔۔۔۔ تحریر و تقریر دونوں میدان کے ماہر تھے، اسلوب خطابت بڑا موثر اور نرالا تھا، زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا۔ ان کے چلے جانے پر دل کہتا ہے اندر سے آواز آتی ہے کہ
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہوں جسے۔۔۔

ابھی  پندرہ بیس دن پہلے حضرت کی دعوت پر رانچی کے پروگرام میں شریک ہوا تھا۔۔ دوسرے دن کے جلسے میں مجھے بھی حضرت کے سامنے گفتگو کا موقع ملا تھا۔۔ میں نے مولانا مرحوم کی شان میں عربی کے دو اشعار پڑھے تھے۔
ایک شعر تھا
اذا قالت حذام فصدقوھا
فان القول ما قالت حذام
اور دوسرا شعر تھا۔..
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
حاضرین میں سے بعض نے بتایا کہ جب آپ یہ اشعار پڑھ رہے تھے، مولانا مستقل آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کی طرف متوجہ تھے۔۔۔
مولانا کی یادیں اور باتیں بہت سی محفوظ ہیں ان شاء اللہ تفصیلی مضمون میں اس کا اظہار ہوگا، صرف ایک واقعہ بتاتا ہوں کہ ایک بار کسی صاحب نے جو گاوں کے مکھیہ تھے حضرت سے ملنے گئے اور اپنی تعریف اور کارنامے شمار کرانے لگے اور کہا کہ حضرت میں نے ایسا کیا ایسا کیا اور سارے لوگ میرے خلاف ہیں، جب کہ میں باکل صحیح اور درست پر ہوں تو آپ نے کہا آپ کا یہ دعویٰ تو ایسا ہے کہ گویا اپ نبی اور رسول سے بڑھ کر ہیں، ان ہی کے برابر آپ کی مخالفت ہو رہی ہے۔۔ وہ صاحب چپ ہوگئے۔۔ مولانا نے کہا صرف اپنے کو صحیح ثابت کرنے والا۔۔۔  یقنیا؟؟؟؟؟!!
حضرت مولانا کی زندگی، خدماتاور کارنامے پر تفصیلی مضمون لکھوں گا ابھی دل و دماغ ایک طرح سے ماوف ہے، جلدی جلدی جو ہوسکا لکھ دیا، بس اس شعر پر اپنی تحریر ختم کرتا ہوں کہ
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ