Ticker

6/recent/ticker-posts

جشن آزادی مبارک شاعری | وطن سے محبت شاعری | حب الوطنی شاعری

جشن آزادی مبارک شاعری | وطن سے محبت شاعری | حب الوطنی شاعری

یومِ آزادی مبارک
۔
چمکتا رہے یونہی آنگن ہمارا
ستاروں سے بھر جائے دامن ہمارا
۔
رہیں خوشیاں دائم ہمارے چمن میں
مہکتا رہے بس یہ مسکن ہمارا
۔
صنم کتنا سجتا ہے تم پر یہ زیور
یہ جھومر یہ بالی یہ کنگن ہمارا
۔
ذرا تم ہنسو تو یہ کلیاں کھلیں گی
اگر روٹھ جاؤ تو گرہن ہمارا
۔
ہمیں اس وطن سے ہے از حد محبت
دلوں میں دھڑکتا نشیمن ہمارا
۔
سبھی ڈور ہوتی ہے کمزور لیکن
نہ ٹوٹے کبھی بھی یہ بندھن ہمارا
۔
بہاروں کے دن اب تو آنے لگے ہیں
چلو سب سجائیں یہ گلشن ہمارا
کفیل احمد

یومِ آزادی پہ ایک نظم پیشِ خدمت ہے


اے وطن ( نظم)


تو چمکتا ہی رہے چاند کی صورت اے وطن
تیرے دامن میں سدا پھول مہکتے ہی رہیں
تیرے آنگن میں بہاروں کا سماں چلتا رہے
تیرے ماتھے پہ ستارے یوں چمکتے ہی رہیں
۔
اس قدر پھیلے محبت کی فضا یاں ہر سو
ترا ہر کونا محبت کی زباں ہو جائے
اس قدر تیرے مکینوں میں ہو اخلاص یہاں
ترا ہر فرد عقیدت کا بیاں ہو جائے
۔
اے وطن تیرے جوانوں کے رہیں جذبے جواں
تیرے اشخاص شجاعت کا نشاں ہو جائیں
کیسے آزاد ہوا تھا یہ وطن جان لیں سب
تیرے لوگوں پہ وہ سب راز عیاں ہو جائیں
۔
ہر کرن تیرے مقدر کو سنوارے اے وطن
ہر نیا دن بھی تری شان بڑھانے آئے
ہر نکلتا ہوا سورج دے سلامی تجھ کو
نت نئی روز کوئی شمع جلانے آئے
۔
تری عظمت پہ کبھی آنچ نہ آئے اے وطن
تا قیامت یوں سلامت ترا یہ نام رہے
بس خوشی سے ہی بھرے لمحے نظر آئیں یہاں
اور ترقی سے جڑا ہو جو ترا کام رہے
۔
ترا ہر فرد لیے علم جہاں بھر میں یونہی
اپنی دھرتی کے محاسن سے پکارا جائے
داغ جتنے بھی لگے ہیں ترے دامن پہ ابھی
صاف کر کے وہ سبھی اس کو نکھارا جائے
۔
ہر پہر شان سلامت یوں رہے میرے وطن
ہر گھڑی تیرے تقدس کو بڑھایا جائے
ساری دنیا میں تجھے عزت و تکریم ملے
ہر جگہ پر ترے پرچم کو سراہا جائے
۔
زاہد علی اداس ایڈووکیٹ

Desh Bhakti Shayari Urdu Mein

شہید وطن شاعری

یومِ آزادی پر شاعری Desh Bhakti Shayari Urdu Mein
یومِ آزادی پر شاعری Desh Bhakti Shayari Urdu Mein

جشن آزادی مبارک شاعری

دیش گیت
پھر دیش کو سرسبز بنا کیوں نہیں دیتے
تم اس کولہو مراپلا کیوں نہیں دیتے

تم اس طرح نفرت کو مٹا کیوں نہیں دیتے
اک پیڑ محبت کا لگا کیوں نہیں دیتے

بھارت کے مہاراجہ کا اجمیر ہے مسکن
یہ بات زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے

جس شہر میں یہ لال قلعہ تاج محل ہے
اس شہر کی گلیوں میں گھما کیوں نہیں دیتے

شک جن کو ہو بھارت کے حسیں ہونے پہ ان کو
تم وادی کشمیر دکھا کیوں نہیں دیتے

یہ اپنا وطن اپنا وطن اپنا وطن ہے
جاں اس کے لیے اپنی لٹا کیوں نہیں دیتے

جو آنکھ دکھاتا ہے مرے پیارے وطن کو
اس شخص کی ہستی کومٹا کیوں نہیں دیتے

ہیں برق و شرر دیش میں موجود ہمارے
دشمن کو یہ آئینہ دکھا کیوں نہیں دیتے

مل جل کے سبھی ساتھ رہیں دیش میں "زاہد"
یہ نغمہ محبت کا سنا کیوں نہیں دیتے

محمد زاہد رضا بنارسی
9451439786

وطن زباں سے نہیں جسم و جاں سے ملتا ہے: وطن سے محبت شاعری

میرے تازہ اشعار وطنِ عزیز کے نام

زمیں کا ٹکڑا کوئی آسماں سے ملتا ہے
وطن زباں سے نہیں جسم و جاں سے ملتا ہے
۔
کچھ ایسا خاص ہے رشتہ کہ اس محبت میں
مثال دوں تو کہوں میری ماں سے ملتا ہے
۔
تو ایک شخص کی دریافت کا سفر نہ سمجھ
خودی سے عزم سے صدقِ نہاں سے ملتا ہے
۔
یہ واجبی سا تعلق قبول کرتا نہیں
جبینِ عشق کے روشن نشاں سے ملتا ہے
۔
اسی کی خاک سے اٹھا ہے یہ خمیرِ بدن
اسی کا سلسلہ آخر زماں سے ملتا ہے
۔
وطن کی خاک کو چھوتے ہوے ہمارے وجود
کنارہ جس طرح آب ِرواں سے ملتا ہے
۔
نظر اٹھے تو کھلے پاک سر زمیں کا جمال
کبھی مکاں سے کبھی لامکاں سے ملتا ہے
۔
نثار ہوتے رہے گل زمیں پہ کیا کیا لوگ
سراغ اس کا بہت رفتگاں سے ملتا ہے
۔
مرا وطن ہے وہ گلزارِ جنتِ ارضی
جو چاروں سمت سے جائےاماں سے ملتا ہے
۔
شاذیہ اکبر

مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں: حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شاعری

مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں

مرے وطن تو درخشاں رہےزمانے میں
ترا ہی ذکر نمایاں رہےزمانے میں
ہر ایک تیرا ثناء خواں رہے زمانے میں
جہاں کوصرف ترا دھیاں رہےزمانے میں
۔
بمثلِ نیرِ تاباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں۔
۔
ترے چمن میں سدا فصلِ نوبہار رہے
کہیں بھی اب نہ خذاؤں کاکاروبار رہے
قرار والوں کا آرام بر قرار رہے
کہ تیری گود میں کوئی نہ سوگوار رہے
۔
جو غمزدہ ہے وہ شاداں رہےزمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
سنوارنے ہیں ترے دشت گلسِتاں کی طرح
تری زمیں کو بنانا ہے آسماں کی طرح
تجھے سنبھال کے رکھنا ہے ارمغاں کی طرح
تجھے اجال کے رکھنا ہے کہکشاں کی طرح۔
۔
تو رشکِ عالمِ امکاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
جو خارزار ہیں گلزار میں بدل جائیں
بھڑک رہے ہیں جو شعلے گلوں میں ڈھل جائیں
بھٹکنے والے عناصر سبھی سنبھل جائیں
ترے تمام عدو شہر سے نکل جائیں
۔
تو اک مہکتا گلِستاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
زمانے والے تجھے اپنا پیشوا سمجھیں
بھٹکنے والے تجھے اپنا رہنما سمجھیں
گھرے بھنور میں ہیں جو تجھ کو ناخدا سمجھیں
تجھی کو اہلِ زمیں سایہُ خدا سمجھیں۔
۔
تو سب کے درد کا درماں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
جو چاہتے ہیں تجھے انکی خیر چاہوں میں
ترے عدو کے لیے صورتِ قضا ہوں میں
۔
تو خوبصورتِ خوباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
کسی کے حسن کی تاثیر ہے وجود ترا
کسی کے عشق کی جاگیر ہے وجود ترا
کسی کے خواب کی تعبیر ہے وجود ترا
کسی کے عزم کی تصویر ہے وجود ترا
۔
سدا تو حرزِ دل و جاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں

مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں جشن آزادی مبارک شاعری یومِ آزادی پر نظم

مرے وطن تو درخشاں رہےزمانے میں
ترا ہی ذکر نمایاں رہےزمانے میں
۔
ہر ایک تیرا ثناء خواں رہے زمانے میں
جہاں کوصرف ترا دھیاں رہےزمانے میں
۔
بمثلِ نیرِ تاباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
ترے چمن میں سدا فصلِ نوبہار رہے
کہیں بھی اب نہ خزاؤں کاکاروبار رہے
۔
قرار والوں کا آرام بر قرار رہے
کہ تیری گود میں کوئی نہ سوگوار رہے
۔
جو غمزدہ ہے وہ شاداں رہےزمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
سنوارنے ہیں ترے دشت گلسِتاں کی طرح
تری زمیں کو بنانا ہے آسماں کی طرح
۔
تجھے سنبھال کے رکھنا ہے ارمغاں کی طرح
تجھے اجال کے رکھنا ہے کہکشاں کی طرح
۔
تو رشکِ عالمِ امکاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
مرے وطن تو درخشاں رہےزمانے میں
ترا ہی ذکر نمایاں رہےزمانے میں
۔
ہر ایک تیرا ثناء خواں رہے زمانے میں
جہاں کوصرف ترا دھیاں رہےزمانے میں
۔
بمثلِ نیرِ تاباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
ترے چمن میں سدا فصلِ نوبہار رہے
کہیں بھی اب نہ خزاؤں کاکاروبار رہے
۔
قرار والوں کا آرام بر قرار رہے
کہ تیری گود میں کوئی نہ سوگوار رہے
۔
جو غمزدہ ہے وہ شاداں رہےزمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
سنوارنے ہیں ترے دشت گلسِتاں کی طرح
تری زمیں کو بنانا ہے آسماں کی طرح
۔
تجھے سنبھال کے رکھنا ہے ارمغاں کی طرح
تجھے اجال کے رکھنا ہے کہکشاں کی طرح
۔
تو رشکِ عالمِ امکاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
جو خارزار ہیں گلزار میں بدل جایٸں
بھڑک رہے ہیں جو شعلے گلوں میں ڈھل جائیں
۔
بھٹکنے والے عناصر سبھی سنبھل جائیں
ترے تمام عدو شہر سے نکل جائیں
۔
تو اک مہکتا گلِستاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
زمانے والے تجھے اپنا پیشوا سمجھیں
بھٹکنے والے تجھے اپنا رہنما سمجھیں
۔
گھرے بھنور میں ہیں جو تجھ کو ناخدا سمجھیں
تجھی کو اہلِ زمیں سایہُ خدا سمجھیں
۔
تو سب کے درد کا درماں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
جو چاہتے ہیں تجھے انکی خیر چاہوں میں
ترے عدو کے لیے صورتِ قضا ہوں میں
۔
تو خوبصورتِ خوباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
کسی کے حسن کی تاثیر ہے وجود ترا
کسی کے عشق کی جاگیر ہے وجود ترا
کسی کے خواب کی تعبیر ہے وجود ترا
کسی کے عزم کی تصویر ہے وجود ترا
۔
سدا تو حرزِ دل و جاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔

جشن آزادی مبارک شاعری

جو خارزار ہیں گلزار میں بدل جائیں
بھڑک رہے ہیں جو شعلے گلوں میں ڈھل جائیں
۔
بھٹکنے والے عناصر سبھی سنبھل جائیں
ترے تمام عدو شہر سے نکل جائیں
۔
تو اک مہکتا گلِستاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
زمانے والے تجھے اپنا پیشوا سمجھیں
بھٹکنے والے تجھے اپنا رہنما سمجھیں
۔
گھرے بھنور میں ہیں جو تجھ کو ناخدا سمجھیں
تجھی کو اہلِ زمیں سایہُ خدا سمجھیں
۔
تو سب کے درد کا درماں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
جو چاہتے ہیں تجھے انکی خیر چاہوں میں
ترے عدو کے لیے صورتِ قضا ہوں میں
۔
تو خوبصورتِ خوباں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں
۔
کسی کے حسن کی تاثیر ہے وجود ترا
کسی کے عشق کی جاگیر ہے وجود ترا
کسی کے خواب کی تعبیر ہے وجود ترا
کسی کے عزم کی تصویر ہے وجود ترا
۔
سدا تو حرزِ دل و جاں رہے زمانے میں
مرے وطن تو درخشاں رہے زمانے میں

جشن آزادی مبارک نظم

Rajab Chodhary

جشن آزادی مبارک اپنا وطن یہ پیارا: حب الوطنی سے لبریز شاعری، وطن سے محبت شاعری

(اپنا وطن یہ پیارا)

سارے چمن سے اچھا اپنا چمن یہ پیارا
دنیاکی ھے نظر میں اپنا وطن یہ پیارا
۔
نانک ھے اور چشتی ،پنڈت ھے اور ملّا
جمنا ندی یہاں ھے اور ھے ندی بھی گنگا
سرحد پہ ھے سپاہی جو دے رہا ھے پہرہ
دریا ھے اور سمندر پربت ھے اور ہمالہ
کشمیر کی ھے وادی جنت نشاں ہمارا
دنیا کی ھے نظر میں اپنا وطن یہ پیارا
سارے چمن سے اچھا اپنا چمن یہ پیارا
۔
تھے دیش کے"مجا ہد عبدالحمید" یارو
قربانی زندگی کی دی ھے" بھگت" بھی پیارو
"گاندھی،،یہ کہہ رہے تھے اس دیش کو سنوارو
"آزاد" کہہ رہے تھے لوگوں کو اب پکارو
یہ ملک ھے ہمارا اک آسماں کا تارا
دنیا کی ھے نظر میں اپنا وطن یہ پیارا
سارے چمن سے اچھا اپنا چمن یہ پیارا
۔
للکارا "نہرو "نے بھی "اشفاق "جاں گنوائی
دونوں نے اپنی اپنی ہمت بھی یوں دکھائی
ہر ذہن میں یوں خوشبو اس طرح سے بسائی
بھارت میں اس طرح سے آزادی اپنی آئی
آزادی کی یہ کشتی کو مل گیا کنارا
دنیا کی ھے نظر میں اپنا وطن ھے یہ پیارا
سارے چمن سے اچھا اپنا چمن یہ پیارا

رئیس اعظم حیدری

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ