Ticker

6/recent/ticker-posts

صوفیائے کرام اور اتحاد ملت - تصوف کا مفہوم - تصوف اور اسلام

صوفیائے کرام اور اتحاد ملت Sufiya Ekram Aur Ittehad E Millat

صوفیاء کے توسط سے ملت کو متحد کرنا بظاہر ایک مشکل عنوان ہے لیکن اگر ایمانداری سے صوفیائے کرام کی تعلیمات کو زندگی میں اپنایا جائے تو اتحاد قائم کرنا بہت آسان ہے۔اسلام کی ترویج میں صوفیائے کرام کا بہت اہم کردار ہے ۔انہیں کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس ملک میں ایمان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔

تصوف کا مفہوم

صوفیاء کو سمجھنے سے پہلے ہمیں تصوف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اسلام کے کسی بھی مستند ماخذ میں تصوف کی اصطلاح نہیں ملتی ہے بلکہ لفظ " تزکیہ" یعنی انسانی نفوس کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنا ایک مستقل اسلامی اصطلاح ہے جس کا مقصد خاص خود کو پاک کرنا ہے۔تصوف دراصل تزکیہ کا مروجہ لفظ ہے۔دوسرا لفظ " احسان" ہے جو اللہ سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔ " تعلق مع اللہ کی تقویت و استواری، غفلت ومادیت سے حفاظت اور امراض نفسانی کے علاج کا وہ طریقہ جس کا نام مرورزمانہ اور بعض اسباب و محرکات کی بنا پر بعد تصوف پڑ گیا، حقیقت میں قرآنی اصطلاح کے مطابق" تزکیہ" اور حدیث صحیح کی تعبیر کے مطابق" احسان" ہی کا وہ دینی شعبہ تھا جس کو قرآن مجید میں بعثت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقاصد چہارگانہ میں شمار کیا گیا ہے"۔
( تاریخ دعوت وعزیمت، حصہ چہارم، ص 246)

تصوف اور اسلام

مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں" دل کے حال سے جو چیز بحث کرتی ہے اس کا نام تصوف ہے"۔
غور کیا جائے تو اسلام کا اصل، تصوف ہے اور تصوف کا اصل، احسان ہے۔تصوف کی بنیاد احسان پر قائم ہے۔حدیث جبرئیل میں احسان کی تشریح کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ نے بتایا کہ احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ، یہ نہ ہو سکے تو یہ محسوس کرو کہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
( بخاری و مسلم )
اس حدیث میں عبد لفظ کا استعمال ہوا ہے یعنی عبادت ایسے کروجیسے کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا تمہیں اللہ دیکھ رہا ہے ۔اکثر لوگ عبادت کا مطلب نماز سمجھتے ہیں جبکہ عبادت کا اصل مطلب پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت کے ہوتا ہے۔یعنی پوری زندگی ایسے گزارنا جیسے کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو یا اللہ تم کو دیکھ رہا ہے، یہی ہے تصوف۔
اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ سے قربت کا نام احسان ہےجو صرف تزکیہ نفس سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔صحابہ کرام کی زندگی میں جیسی خدا ترسی، پرہیزگاری، دنیا بیزاری، طلب آخرت اور تزکیہ نفس وغیرہ پایا جاتا تھا انہیں خصلتوں کو بعد میں جن نفوس نے اپنایا ان کو صوفیاء کہا گیا ۔صوفیائے کرام کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہی تزکیہ دیکھنے کو ملتا ہے جو اصحابِ رسول اللہ میں پایا جاتا تھا ۔

صوفیائے کرام نے صرف ملت اسلامیہ کو ہی اتحاد کا پیغام نہیں دیا بلکہ پوری امت محمدیہ کو بھی گلے لگایا۔ صوفیاء اور اتحاد ملت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ انہیں کے نقش قدم پر چل کر ملت کو متحد کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے ملت کےاندر اتحاد پیدا کرنے کے لئے اپنی دنیا قربان کیں۔دنیا کا لالچ چھوڑ کر زہد وتقویٰ اختیار کیا ۔ان صوفیائے کرام نے تمام طرح کے نظریات، عقائد اور مسلک کے فرق کے باوجود خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلائی ۔سماج کو محبت کا پیغام دیا ۔ہمیشہ دوسروں کا بھلا سوچا اور اپنے حصے میں محرومیوں اور پریشانیوں کو پسند کیا۔ آرام و آسائش سے دور رہ کر ہمیشہ سادہ زندگی گزاری۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ " اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جس کے داہنے ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول اللہ ہو اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہ سلوک اختیار کرے تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے" ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد ملت کے راستے میں شاید مسلک سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔آج لوگوں نے مسلک اور موقف کو ہی دین سمجھ لیا ہے۔ہمیں مسلک کے خول سے باہر نکلنا چاہیے ۔ملت کا اتحاد دین کی بنیاد پر ہو سکتا ہے نہ کہ مسلک و فکر کی بنیاد پر ۔مسلک ہمارا داخلی معاملہ ہے مگر باطل طاقتیں مسلمان سمجھ کر ہم پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور ہم مسلک کے خیموں میں قید ہو کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ آج اپنے داخلی اختلافات کے باوجود جب کبھی بھی ملت اسلامیہ پر مصیبت آئے تو متحد ہوکر اس کا مقابلہ کریں ۔اللہ کی رضا کے لئے اپنے نفس کو دنیا طلبی سے پاک رکھیں ۔دولت کی ہوس سے دور رہ کر حلال روزی سے اپنی پرورش کریں ۔آج بھی صوفیاء کے راستے پر چل کر امت متحد ہو سکتی ہے جن کی تعلیمات خالص قرآن واحادیث کے تابع رہی ہے ۔جیسے ہی ہم اللہ کی رضامندی کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں گے اللہ کی نصرت ان شاءاللہ ہمارے ساتھ ہوگی اور ملت اتحاد کا ایک نمونہ بن جائے گی ۔
آج کی خانقاہیں دراصل صوفیائے کرام کی تعلیم گاہیں رہی ہیں ۔لہٰذا ان خانقاہوں کو ہی اپنے اوپر پڑی گرد کو مٹا کر اتحاد ملت کا بیڑا اٹھانا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے پہلے کم از کم صوبائی سطح پر ایک پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ وقتاً فوقتاً اس کے تحت تمام خانقاہوں کے سجادگان متحد ہو کر امت کو کوئی پیغام دے سکیں۔ بظاہر تو یہ ایک مشکل امر ہے کہ اس کی شروعات کون کرے؟ لیکن سچ یہ ہے کہ اسی طرح کا"بین الخوانقاہ فورم" تیار کرکے سب سے پہلے خانقاہوں کے متحد ہونے کا زندہ ثبوت دینا ہوگا تبھی امت کے اتحاد کی جانب پیش قدمی ہوسکتی ہے۔
صوفیائے کرام نے جب تک جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جراءت کی اللہ نے زمانے میں ان کو معزز رکھا۔ پچھلے ادوار میں سچے صوفی تقویٰ کے بناء پر تنہا خود ایک انجمن ہوا کرتے تھے مگر آج اس کمی کے پیش نظر سب کو مل کر یہ کام کرنا ہوگا ۔پچھلے دو تین دہائیوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لگ بھگ تمام خانقاہیں اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہیں اسی لئے امت تک کوئی مشترکہ ملی پیغام نہیں پہنچ پاتا ہے ۔امت تو معصوم ہے، وہ ان پیچیدگیوں کو جاننا نہیں چاہتی ہے۔امت تو علماء، فقہاء، ائمہ، رہنما ومشائخ کی آواز پر لبیک کہنے کو ہمیشہ تیار رہی ہے۔ 15 اپریل 2018 کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں پورے بہار سے آئی امت کے دیوانوں کا سمندر امت کے زندہ ہونے کا بین ثبوت ہے ۔1985 میں شاہ بانو کیس کے مظاہرے کے بعد راجدھانی پٹنہ میں یہ غالباً سب سے بڑا مجمع تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلطی امت میں نہیں ہے بلکہ اگلی صف کے لوگ اب کم ہمت ثابت ہورہے ہیں ۔کورونا دور نے تو ان کی کم ہمتی کو منظر عام پر لا دیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دوسرے گروہ تو ایک ساتھ ہو سکتے ہیں لیکن صوفیاء کے آستانوں کی چادریں الگ الگ ہی بچھائی جاتی ہیں ۔پہلے حکومتیں خانقاہوں میں حاضری لگایا کرتی تھیں مگر اب خانقاہیں حکومتوں کے دربار میں پناہ تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ابھی ضرورت ہے کہ ہم خانقاہوں کی سنہری چاردیواری سے باہر نکل کر اتحاد امت کی فضا قائم کریں ۔دوسری جگہوں پر تو اختلافات ممکن ہے لیکن جہاں صوفیاء کی تعلیمات پیش نظر ہو وہاں سے اتحاد کی کرن ہی پھوٹتی ہے۔جہاں اللہ کی رضا درکار ہو وہیں سے اتحاد کی صدا گونجتی ہے۔جہاں قرآن واحادیث کی تعلیمات پر عمل ہوتا ہو وہیں سے محبت کی صدا گونجتی ہے۔
اکبرالہ بادی نے کیا خوب کہا ہے ؎

قرآن رہے پیش نظر یہ ہے، شریعت
اللہ رہے پیش نظر یہ ہے، طریقت

سرفراز عالم، عالم گنج پٹنہ
رابطہ. 8825189373
Read More اور پڑھیں

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ