Ticker

6/recent/ticker-posts

آل رسول حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف کی رحلت ایک زرین عہد کا خاتمہ

اسلام کی دنیا

آل رسول حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف کی رحلت ایک زرین عہد کا خاتمہ

آل رسول حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف کی رحلت ایک زرین عہد کا خاتمہ!  وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی    از قلم۔محمد اشفاق عالم نوری فیضی رکن۔مجلس علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136 رابطہ نمبر۔9007124164        دنیاے سنیت کے لیے 2020عیسوی کا سال بڑا ہی المناک اور غم کا سال کے طور پہ یاد کیے جائیں گے وہ دن دور نہیں کہ موجودہ سال کے خاتمے کا چند دن ہی بچے ہیں اور یہ سال اپنے آخری مرحلے کو طے کررہا ہے اس سال کو دنیائے سنیت کافی دنوں تک یاد کرتے رہیں گے ۔اس لئے کہ پوری دنیا جہاں ایک طرف کرونا وائرس ،لاوکڈاون ، سی اے اے ، این آرسی ، بابری مسجد ،تین طلاق کا قضیہ ، مآب لنچنگ ، گوکشی اور اب لو جہاد جیسے معاملات سے جھوجھ ہی رہے تھی وہیں دوسری طرف اپنے عظیم رہبروں، قائدوں، اسلافوں اور اپنے پیروں کو ماتھے کی نگاہوں کے سامنے کھوتے ہوے دیکھ کر پریشان اور غمگین ہورہے تھے تو کبھی ہندوستان کے عظیم قائد خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی مجیب اشرف صاحب قبلہ (ناگپور) کے جانے کا غم تو کبھی حضرت علامہ مفتی محمد معراج القادری صاحب قبلہ استاد الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور کی رحلت کی فکر  تو کبھی شہنشاہ خطابت حافظ الحدیث حضرت علامہ ابو الحقانی صاحب قبلہ وغیرہ کا داغ مفارقت دے جانا ہمارے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے خصوصیت کے ساتھ حال ہی میں پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ سید کمیل اشرف اشرف الجیلانی صاحب قبلہ کی رحلت دنیائے سنیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ناچیز آخر کار سوچ وفکر کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوکر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر کا2020ءکا سال علمائے اہل سنت والجماعت اور پوری قوم و ملت کے لئے غم کا سال کیوں جارہاہے؟ اس طرح ہمارے درمیان سے جید جید علمائے کرام و صلحاے عظام اور مفتیان دین متین کا دنیا اور ہمیں چھوڑ جانا ہمارے لئے کسی مصیبت اور پریشانی سے کم نہیں ہے ایسے ہی علمائے دین  کے سلسلے میں فرمان عالیشان ہے کہ " مَوۡتُ الۡعَالِمِ مَوۡتُ الۡعَالَمِ" یعنی ایک عالم دین کی موت پوری دنیا کی موت ہے‌۔ اور عالم دین کی موت مصیبت کا سبب ہے جسکی تلافی نا ممکن ہے اور ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں کیا جاسکتا، وہ ایک ستارہ ہے جسکی رحلت سے دنیا بے نور ہوجایا کرتا ہے اور انسان انکے فیوض و برکات اور ثمرات سے محروم ہو جاتا ہے جو دنیا میں عالم دین اور آل رسول کی موجودگی کے باعث انہیں میسر ہوا کرتی تھیں ایسی ہی محرومی کا سامنا مورخہ 5/نومبر 2020ء بروز جمعرات دوپہر 12/ بجے کے بعد پیش آیا اور سرزمین کچھوچھہ کے اس عظیم خانقاہ جسے دنیائے سنیت سلسلہ اشرفیہ سے جانتی اور پہچانتی ہے گل گلزار سیادت اولاد مخدوم اشرف سمنانی جہانگیری آل رسول حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف اشرف الجیلانی صاحب قبلہ جو ہمیں داغ مفارقت دے گئے اور ہند وپاک کے لاکھوں مریدین و معتقدین اور متوسلین کو روتا بلکھتا ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔  آپکی تعلیم:     حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف صاحب قبلہ کی فراغت الجامعۃالاشرفیہ سے 1957عیسوی میں ہوئی ۔  آپ نے پوری زندگی قوم وملت کے رشد وہدایت کے لیے وعظ و نصیحت ، دعوت و تبلیغ اور دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے وقف کردی تھیں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر اچھے خطیبوں میں آپ کا شمارہوا کرتا تھا۔    حضرت علامہ مصطفی رضا خان بریلوی عرف مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے زمانہ حیات میں آپ مفتی اعظم ہند کی موجودگی میں بڑے بڑے جلسوں اور محفلوں میں خطاب فرمایا کر تے تھے ۔حضور مفتی اعظم ہند آپکی خطابت کو بڑی پسند فرمایا کرتے تھے ۔ اور آپ کو دیگر علماوں اور خطیبوں کے بنسبت کافی عزت و شرف سے نوازتے اور ہو بھی کیوں نا جبکہ آل رسول کا ادب واحترام کرنا خانقاہ بریلی کی شروع سے ایک الگ پہچان رہی ہے اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حضرت علامہ اختر رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عرف ازہری میاں، نبیرہ اعلیٰ حضرت پیر و مرشد علامہ شاہ سبطین رضا خان علیہ الرحمہ عرف امین شریعت جیسی شخصیات آل رسول کے ساتھ کافی ادب واحترام کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار اگر عمدہ خطیبوں کے پاس تاریخ خالی نہ ہوتی تو آپ حضرت سید کمیل اشرف صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کو دعوت دلاتے اور آپ حضرت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شریک پروگرام ہوتے ،آپکی عمدہ خطابت ہوا کرتی تھی جو الحمدللہ نکات پر مشتمل رہاکرتی تھی بڑی بڑی محفلین جلسے اور جلوس میں یقیناً آپ کی شرکت کامیاب وکامرانی کی ضمانت بن جایا کرتی تھی ۔چند سالوں سے عمر ضعیفی کیوجہ سے محفلوں،جلسوں اور جلوس میں شرکت بہت کم کردیے تھے ۔لیکن الحمدللہ آپکی شرکت جن جلسوں میں ہوا کرتا تو سامعین آپکی خطابت سماعت کرنے کے بعد خود کو ایک الگ کیف و سرور میں محو ومست ہو جایا کرتے تھے۔        آپ ایک عظیم پیر طریقت کی حیثیت رکھتیے تھے ۔ آپ اپنے والد گرامی حضرت سید طفیل اشرف اشرف الجیلانی علیہ الرحمہ کے مسند سجادگی پر فائز ہو کر پوری زندگی دین اسلام کے فرائض اور نشر و اشاعت میں مصروف عمل رہے ۔ ہندوستان کی عظیم الشان ریاست کہے جانے والا اتر پردیش کے بسکھاری میں دارالعلوم محبوب یزدانی کے نام آپ نے ایک عظیم ادارہ بھی قائم کیا ہے۔جس میں دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بھی بند و بست ہے باصلاحیت اور ماہر اساتذہ کرام کی نگرانی میں شب وروز طالبان علوم نبویہ علم دین اور ادب تربیت حاصل کرنے پر مامور رہتے ہیں۔   آپ کے نام حضور حافظ ملت ایوارڈ:     آپ کی دینی تبلیغی خدمات کے اعتراف میں شہزاد  حضور حافظ ملت پیر طریقت رہبر راہ شریعت اخلاق حسنہ کا سراپا پیکر حضرت علامہ عبد الحفیظ مصباحی صاحب قبلہ سربراہ اعلیٰ الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور عربی یونیورسٹی کا سب سے بڑا اعزاز "حافظ ملت ایوارڈ" عرس حضور حافظ ملت کے موقع سے آپکی خدمت میں پیش کیا گیا۔   آپکا اخلاق کریمانہ:    حضرت علیہ الرحمہ مکارم اخلاق کے پیکر عظیم،حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کے بہترین مرقع تھے اور اپنے سے بڑوں کے بڑے ہی قدردان تھے۔مہمان نوازی ایسی کے انسان انکی مہمان نوازی دیکھ لے تو زندگی بھر یاد رکھے ۔اسی سلسلے میں سراج الفقہاء محقق عصر حاضر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین وشعبہ افتاء الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپورعربی یونیورسٹی اپنے اپنے تعزیتی کلمات میں رقمطراز ہیں" حضرت پیر صاحب کی عنایتیں اور نوازشیں یاد ہیں ۔میں عروس البلاد ممبئی جب بھی جاتا آپ سے ملاقات ضرور کرتا ابھی سولہ روز پہلے ممبی جانا ہوا تو آپکی عیادت اور مزاج پرسی کے لئے حاضر خدمت ہوا۔نقاہت وضعف اور بیماری کے سبب پہلے جیسی خوشگوار ملاقات تو نہیں رہی لیکن اس حالت میں بھی آپ نے اس بے مایہ اور جامعہ اشرفیہ اور عزیز ملت اور اساتذہ اشرفیہ کے احوال و کوائف دریافت فرماے اوردونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور سب کو سلام کہا پھر میں بڑے ادب کے ساتھ سلام کرکے رخصت ہوا۔باہر یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ حضرت پیر صاحب قبلہ نے چاے پلانے کے لیے فرمایا ہے میں ٹھہرگیا اور چاے نوشی کے وقفہ میں حضرت کی بیماری کے احوال معلوم کیے سب نے بڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا۔    حضرت علامہ سید کمیل اشرف صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی وفات سے نہ صرف سلسلہ اشرفیہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑا خسارہ ہے اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور انکے مریدین، معتقدین، متوسلین اور اعز واقارب کو صبر جمیل عطا فرما اور دونوں جہان کی نعمتوں سے مالا مال فرماے۔آمین ؀  یہ کون اٹھا کے دیر و کعبہ شکستہ دل ،خستہ گام پہنچے جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ،خواص پہنچے،عوام پہنچے  تیری لحد پہ  خدا کی رحمت، تیری لحد کو سلام  پہنچے مگر تری  مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں  نہیں  ہے

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

از قلم۔محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔مجلس علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164
دنیاے سنیت کے لیے 2020عیسوی کا سال بڑا ہی المناک اور غم کا سال کے طور پہ یاد کیے جائیں گے وہ دن دور نہیں کہ موجودہ سال کے خاتمے کا چند دن ہی بچے ہیں اور یہ سال اپنے آخری مرحلے کو طے کررہا ہے اس سال کو دنیائے سنیت کافی دنوں تک یاد کرتے رہیں گے ۔اس لئے کہ پوری دنیا جہاں ایک طرف کرونا وائرس
،لاوکڈاون ، سی اے اے ، این آرسی ، بابری مسجد ،تین طلاق کا قضیہ ، مآب لنچنگ ، گوکشی اور اب لو جہاد جیسے معاملات سے جھوجھ ہی رہے تھی وہیں دوسری طرف اپنے عظیم رہبروں، قائدوں، اسلافوں اور اپنے پیروں کو ماتھے کی نگاہوں کے سامنے کھوتے ہوے دیکھ کر پریشان اور غمگین ہورہے تھے تو کبھی ہندوستان کے عظیم قائد خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی مجیب اشرف صاحب قبلہ (ناگپور) کے جانے کا غم تو کبھی حضرت علامہ مفتی محمد معراج القادری صاحب قبلہ استاد الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور کی رحلت کی فکر  تو کبھی شہنشاہ خطابت حافظ الحدیث حضرت علامہ ابو الحقانی صاحب قبلہ وغیرہ کا داغ مفارقت دے جانا ہمارے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے خصوصیت کے ساتھ حال ہی میں پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ سید کمیل اشرف اشرف الجیلانی صاحب قبلہ کی رحلت دنیائے سنیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ناچیز آخر کار سوچ وفکر کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوکر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر کا2020ءکا سال علمائے اہل سنت والجماعت اور پوری قوم و ملت کے لئے غم کا سال کیوں جارہاہے؟ اس طرح ہمارے درمیان سے جید جید علمائے کرام و صلحاے عظام اور مفتیان دین متین کا دنیا اور ہمیں چھوڑ جانا ہمارے لئے کسی مصیبت اور پریشانی سے کم نہیں ہے ایسے ہی علمائے دین  کے سلسلے میں فرمان عالیشان ہے کہ " مَوۡتُ الۡعَالِمِ مَوۡتُ الۡعَالَمِ" یعنی ایک عالم دین کی موت پوری دنیا کی موت ہے‌۔ اور عالم دین کی موت مصیبت کا سبب ہے جسکی تلافی نا ممکن ہے اور ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں کیا جاسکتا، وہ ایک ستارہ ہے جسکی رحلت سے دنیا بے نور ہوجایا کرتا ہے اور انسان انکے فیوض و برکات اور ثمرات سے محروم ہو جاتا ہے جو دنیا میں عالم دین اور آل رسول کی موجودگی کے باعث انہیں میسر ہوا کرتی تھیں ایسی ہی محرومی کا سامنا مورخہ 5/نومبر 2020ء بروز جمعرات دوپہر 12/ بجے کے بعد پیش آیا اور سرزمین کچھوچھہ کے اس عظیم خانقاہ جسے دنیائے سنیت سلسلہ اشرفیہ سے جانتی اور پہچانتی ہے گل گلزار سیادت اولاد مخدوم اشرف سمنانی جہانگیری آل رسول حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف اشرف الجیلانی صاحب قبلہ جو ہمیں داغ مفارقت دے گئے اور ہند وپاک کے لاکھوں مریدین و معتقدین اور متوسلین کو روتا بلکھتا ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

فراغت الجامعۃالاشرفیہ

آپکی تعلیم
حضرت علامہ سید محمد کمیل اشرف صاحب قبلہ کی فراغت الجامعۃالاشرفیہ سے 1957عیسوی میں ہوئی ۔  آپ نے پوری زندگی قوم وملت کے رشد وہدایت کے لیے وعظ و نصیحت ، دعوت و تبلیغ اور دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے وقف کردی تھیں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر اچھے خطیبوں میں آپ کا شمارہوا کرتا تھا۔
حضرت علامہ مصطفی رضا خان بریلوی عرف مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے زمانہ حیات میں آپ مفتی اعظم ہند کی موجودگی میں بڑے بڑے جلسوں اور محفلوں میں خطاب فرمایا کر تے تھے ۔حضور مفتی اعظم ہند آپکی خطابت کو بڑی پسند فرمایا کرتے تھے ۔ اور آپ کو دیگر علماوں اور خطیبوں کے بنسبت کافی عزت و شرف سے نوازتے اور ہو بھی کیوں نا جبکہ آل رسول کا ادب واحترام کرنا خانقاہ بریلی کی شروع سے ایک الگ پہچان رہی ہے اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حضرت علامہ اختر رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عرف ازہری میاں، نبیرہ اعلیٰ حضرت پیر و مرشد علامہ شاہ سبطین رضا خان علیہ الرحمہ عرف امین شریعت جیسی شخصیات آل رسول کے ساتھ کافی ادب واحترام کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار اگر عمدہ خطیبوں کے پاس تاریخ خالی نہ ہوتی تو آپ حضرت سید کمیل اشرف صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کو دعوت دلاتے اور آپ حضرت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شریک پروگرام ہوتے ،آپکی عمدہ خطابت ہوا کرتی تھی جو الحمدللہ نکات پر مشتمل رہاکرتی تھی بڑی بڑی محفلین جلسے اور جلوس میں یقیناً آپ کی شرکت کامیاب وکامرانی کی ضمانت بن جایا کرتی تھی ۔چند سالوں سے عمر ضعیفی کیوجہ سے محفلوں،جلسوں اور جلوس میں شرکت بہت کم کردیے تھے ۔لیکن الحمدللہ آپکی شرکت جن جلسوں میں ہوا کرتا تو سامعین آپکی خطابت سماعت کرنے کے بعد خود کو ایک الگ کیف و سرور میں محو ومست ہو جایا کرتے تھے۔ 
آپ ایک عظیم پیر طریقت کی حیثیت رکھتیے تھے ۔ آپ اپنے والد گرامی حضرت سید طفیل اشرف اشرف الجیلانی علیہ الرحمہ کے مسند سجادگی پر فائز ہو کر پوری زندگی دین اسلام کے فرائض اور نشر و اشاعت میں مصروف عمل رہے ۔ ہندوستان کی عظیم الشان ریاست کہے جانے والا اتر پردیش کے بسکھاری میں دارالعلوم محبوب یزدانی کے نام آپ نے ایک عظیم ادارہ بھی قائم کیا ہے۔جس میں دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بھی بند و بست ہے باصلاحیت اور ماہر اساتذہ کرام کی نگرانی میں شب وروز طالبان علوم نبویہ علم دین اور ادب تربیت حاصل کرنے پر مامور رہتے ہیں۔ 

حضور حافظ ملت ایوارڈ

آپ کے نام حضور حافظ ملت ایوارڈ:
آپ کی دینی تبلیغی خدمات کے اعتراف میں شہزاد  حضور حافظ ملت پیر طریقت رہبر راہ شریعت اخلاق حسنہ کا سراپا پیکر حضرت علامہ عبد الحفیظ مصباحی صاحب قبلہ سربراہ اعلیٰ الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور عربی یونیورسٹی کا سب سے بڑا اعزاز "حافظ ملت ایوارڈ" عرس حضور حافظ ملت کے موقع سے آپکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ 

آپکا اخلاق کریمانہ:

حضرت علیہ الرحمہ مکارم اخلاق کے پیکر عظیم،حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کے بہترین مرقع تھے اور اپنے سے بڑوں کے بڑے ہی قدردان تھے۔مہمان نوازی ایسی کے انسان انکی مہمان نوازی دیکھ لے تو زندگی بھر یاد رکھے ۔اسی سلسلے میں سراج الفقہاء محقق عصر حاضر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ شیخ الحدیث و صدر المدرسین وشعبہ افتاء الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپورعربی یونیورسٹی اپنے اپنے تعزیتی کلمات میں رقمطراز ہیں" حضرت پیر صاحب کی عنایتیں اور نوازشیں یاد ہیں ۔میں عروس البلاد ممبئی جب بھی جاتا آپ سے ملاقات ضرور کرتا ابھی سولہ روز پہلے ممبی جانا ہوا تو آپکی عیادت اور مزاج پرسی کے لئے حاضر خدمت ہوا۔نقاہت وضعف اور بیماری کے سبب پہلے جیسی خوشگوار ملاقات تو نہیں رہی لیکن اس حالت میں بھی آپ نے اس بے مایہ اور جامعہ اشرفیہ اور عزیز ملت اور اساتذہ اشرفیہ کے احوال و کوائف دریافت فرماے اوردونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور سب کو سلام کہا پھر میں بڑے ادب کے ساتھ سلام کرکے رخصت ہوا۔باہر یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ حضرت پیر صاحب قبلہ نے چاے پلانے کے لیے فرمایا ہے میں ٹھہرگیا اور چاے نوشی کے وقفہ میں حضرت کی بیماری کے احوال معلوم کیے سب نے بڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا۔
   حضرت علامہ سید کمیل اشرف صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی وفات سے نہ صرف سلسلہ اشرفیہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑا خسارہ ہے اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور انکے مریدین، معتقدین، متوسلین اور اعز واقارب کو صبر جمیل عطا فرما اور دونوں جہان کی نعمتوں سے مالا مال فرماے۔آمین ؀

یہ کون اٹھا کے دیر و کعبہ شکستہ دل ،خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ،خواص پہنچے،عوام پہنچے

تیری لحد پہ خدا کی رحمت، تیری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ