Ticker

6/recent/ticker-posts

علامہ خادم حسین رضوی صاحب پاکستان کے وصال پر خصوصی تحریرIslamic Culture

علامہ خادم حسین رضوی صاحب پاکستان کے وصال پر خصوصی تحریرIslamic Culture


علامہ خادم حسین رضوی صاحب پاکستان کے وصال پر خصوصی تحریرIslamic Culture


مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے


از قلم۔محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔ مجلسِ علماے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164

خادم حسین رضوی کی وفات


آج کل فیس بک، وٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا میں دستک دیتے ہی دلوں کی دھڑکنیں کچھ دیر کے لئے تیز ہو جاتی ہیں کہ نہ جانے پھر کس کی کوئی افسوسناک خبر نظروں کے سامنے آپڑے ابھی چند روز قبل مغربی بنگال کا عظیم سرزمین کمرہٹی( کولکاتا) سے تعلق رکھنے والے عظیم عالم دین دنیا ے سنیت کے بے باک خطیب حضرت علامہ زین الدین شمسی صاحب قبلہ صاحب کے سانحہ ارتحال کا زخم ابھی مندمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ اچانک 19/نومبر 2020ء بعد نماز عشاء جیسے ہی مسجد سے باہر نکلا اور اپنے موبائل کے سوئچ کو آن کیا تو کیا دیکھا کہ فیس بک،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کی دنیا میں بڑی سرعت کے ساتھ افسوسناک خبر حضرت علامہ خادم حسین رضوی امیر وبانی( تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان) کی خبر گردش کر رہی ہے میری زبان سے بھی بے ساختہ" انا للّٰہ وانا الیہ راجعون " جاری ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دست و پا بھی کانپ رہے تھے کہ آخرکار 2020 عیسوی کا سال علماے اہل سنت و الجماعت اور پوری قوم و ملت کے لئے غم کا سال کیوں جارہاہے؟ اس طرح سے ہمارے درمیان جہاں جید علماء کرام وصلحاے عظام  اور مفتیان دین متین کا دنیا اور ہمیں چھوڑ جانا ہمارے لئے کسی مصیبت اور پریشانی سے کم نہیں ہے۔یہ  اور سے بات ہے کہ "کل نفس ذائقۃ الموت "کے تحت سبھوں  کو جانا ہے اور اللہ تعالی کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔اب ہم حضرت علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ امیروبانی( تحریک لبیک یا رسول اللہ) پاکستان کے تعلق سے انکی زندگی کے چند پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

ابتدائی حالات:

حضرت علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ  ضلع اٹک کے ایک گاوں نگا کلاں میں ایک زمیندار گھرانے میں 22نومبر 1966 عیسوی کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام لعل خان ہے ۔آپ کا ایک بھائی جسکا نام امیر حسین ہے اور چار بہنیں ہیں۔آپ کے والد گرامی کا انتقال 2008ء میں ہوا جبکہ آپکی والدہ کا 2010 ءمیں انتقال ہوا۔


تعلیمی سفر:

آپ نے اسکول میں صرف چار کلاس تک عصری تعلیم حاصل کیاتھا اور آٹھ سال کی عمر میں ضلع جہلم کی طرف دینی تعلیم  کیلئے رخت سفر باندھا اور  مدرسہ جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم میں حضرت حافظ و قاری غلام یسین صاحب قبلہ سے حفظ قرآن شروع کیااور چار سال کے عرصے میں حفظ قرآن مکمل کیا  اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی۔پھر آپ نے ضلع گجرات کے قصبے دینہ میں 2 سال قرات کورس کیا۔14/سال کی عمر میں  تعلیم کیلئے لاہور تشریف لائے۔1988ء کو آپ نے دورہ حدیث شریف مکمل فرمایا آپکو عربی کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی اچھی خاصی عبور حاصل تھا۔آپ نے پہلی ملازمت 1993ء میں محکمہ اوقاف پنجاب میں کی اور داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے۔پھر "ختم نبوت" اور " ناموس رسالت" تحریک چلانے کی غرض سے آپ کو ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا اور یتیم خانہ روڈ لاہور کےقریب واقع"مسجد رحمة للعالمين" میں خطابت کرتے رہے اور آخری سانس تک مذکورہ مسجد سے منسلک رہے۔

رشتہ ازدواج:
آپ کی شادی اپنی چچا زاد بہن سے ہوئی اور اللہ رب العزت نے آپکو 2 بیٹوں اور 4 بیٹیوں سے سرفراز فرمایا۔
بڑے صاحب زادے کا نام حافظ سعد حسین رضوی اور چھوٹے صاحبزادے کا نام حافظ  انس حسین رضوی ہے آپ کے دونوں بیٹے حافظ قرآن اور درس نظامی سے تعلیم یافتہ ہیں۔


اقبال سے عشق کی وجہ:
آپ فرماتے ہیں کہ دوران تعلیم درسی کتابوں کے علاوہ جن کتابوں کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرتا تھا ان میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی مجموعہ کلام سر فہرست تھا 1888ء میں "کلیات اقبال" خرید لی تھی اور نو عمری میں ہی اس قلندر شاعر کے افکار کا مطالعہ شروع کردیا تھا،آپ فرماتے ہیں کہ گویا کہ اقبال کی روح نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ہے، اقبال کے کلام کے بعد علامہ اقبال کے شاعری کے استاذ مولانا روم علیہ الرحمہ کو پڑھا اور اور انکے بیشتر کلام کو زبانی یاد کرلیا تھا۔آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اقبال، مولانا روم اور اعلٰی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی شاعری نے بہت زیادہ متاثر کیا اور یہ حضرات عشق رسول کے وہ جام پلاتے ہیں جنھیں پینے کے بعد کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی اور اردو شعراء میں اکبر الہ آبادی کی شاعری پسند تھی۔ آپ کو مطالعہ کا جنون رہتا تھا آپ سفرنامے بہت پڑھتے تھے آپ نے حکیم محمد سعید اورحکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کے تمام سفر نامے پڑھ ڈالے۔تاریخ اسلام کا مطالعہ آپ کی اولین ترجیح تھی اور تمام مسلم سپہ سالار کی سیرت کا مطالعہ کرتے رہتے۔آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کے تمام سپہ سالار اپنی مثال آپ ہیں لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور آپ کے مزار پر حاضری دینا ایک دیرینہ خواہش تھی اور الحمد للہ پوری ہوئی۔

تحریک لبیک یارسول اللہ کا آغاز:
آپ اپنی زندگی شب و روزمعمول کے مطابق گزار رہے تھے کہ غازی ممتاز حسین قادری (پاکستان) علیہ الرحمہ  نے جب گستاخ رسول سلمان تاثیر کو واصل جہنم کیا اور پھر غازی صاحب کو گرفتار کیا گیا اور انکو پھانسی دے دی گئی اس واقعہ نے آپ کی زندگی میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا۔پھر  جب ختم نبوت قانون میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک پاکستان بھرمیں احتجاج ہوا اور فیض آباد میں بھرپور احتجاج کیا گیا جسکی وجہ سے اس تحریک کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور 2018ء میں 26 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے اتنے کم عرصے میں پاکستان کی 5 بڑی تحریک  بن گئیں اس تحریک کا اصل مقصد "نظام مصطفے" صلی اللہ علیہ وسلم کا نفاذ رہا ہے اور حضرت علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ آخری دم تک اسی نظام کے نفاذ کیلئے لڑتے رہے۔

ملفوظات:
1: آپ فرماتے ہیں کہ مجھے عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اپنی ماں کی گود سے ملا ہے میری والدہ اٹھتے بیٹھتے ہربات میں "میں صدقے یارسول اللہ " کہا کرتی تھیں  اور یہ جملہ میری روح و بدن میں بس گیا 
علامہ اقبال بھی ایک فارسی شعر میں کہتے ہیں جسکا ترجمہ کچھ یوں ہے 
 " یہ جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملا ہے یہ میری ماں کی گود اور ندا سے ملا ہے "


2: آپ فرماتے ہیں جب غازی ممتاز حسین قادری علیہ الرحمہ کی رہائی کی تحریک چلائی ہوئی تھی اور اسکی پاداش میں لکھپت جیل میں مجھے ڈال دیا تھا تو اس دوران غازی صاحب علیہ الرحمہ کا خط آیا تھا اور اس خط کو میں اپنی بخشش کا بہانہ سمجھتا ہوں۔ 


3: آپ فرماتے ہیں علامہ اقبال کا یہ فرمان  "انسان دلیر اسی وقت ہوتا ہے جب سینے میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو" یہی جملہ میری زندگی کی اصل ہے۔

  
4: آپ فرماتے ہیں میں ساری زندگی مدینے نہیں گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آقاے نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دیکھاوں گا کہ آپ کی ناموس پہ حملے ہوتے رہے اور میں سب کچھ چھوڑ کر ادھر آ گیا۔

علامہ خادم حسین رضوی صاحب پاکستان



علامہ خادم حسین رضوی صاحب وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے اس زمانہ میں  امت مسلمہ کو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ دینے کیلئے بیدار کیا اور بچہ بچہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مرمٹنے کیلئے تیار ہوگیا۔آپ ہمیشہ ناموس رسالت پر پہرہ دیتے رہے اور اپنی زندگی اسی مشن پہ لگاتے رہے ۔اللہ تعالی عزوجل نے آپ کو وہ حوصلہ اور جرات دی تھی کہ خیمہ کفر آپ کی للکار سے لڑکھڑاتی رہی ہمیشہ خیمہ کفر آپ کی شخصیت سے خوف زدہ رہتا تھا۔ آپ کو ناموس رسالت ﷺ پر پہرہ دینے کی پاداش میں کئی بار جیل جانا پڑا اور سخت سے سخت عقوبتوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ ہمیشہ جبل استقامت بن کر ڈٹے رہے۔آپ اتنے قلیل عرصہ میں پاکستان ہی کیا بلکہ پوری دنیا میں ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لئے جاننے لگے،اور خود حکومت پاکستان بھی آپ کی ولولہ انگیز سحربیانی سے خوفزدہ ہوگئی، اور ہو بھی کیوں نہیں آپ نے عاشق رسول کا سچا وارث اور اعلی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا سچا سپاہی بن کر اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں عشق مصطفی کی ٹمٹماتی چراغ کومزید روشنی عطا کرکے اس دنیا کو 19/نومبر 2020ء رات 8/بجکر 46 منٹ پر اپنے کروڑوں پاک و ہند کے علاوہ پوری دنیا کے عقیدتمندوں کو روتا اور بلختا ہوا ابدی نیند سو گئے(انا للہ واناالیہ راجعون)؀

دیکھ تو نیازی ذرا سو گیا کیا دیوانہ
ان کی یاد میں شاید آنکھ لگ گئی ہوگی

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ