Ticker

6/recent/ticker-posts

شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت اور تعلیم و تربیت

شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت اور تعلیم و تربیت


شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت اور تعلیم و تربیت

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم شیخ ابو صالح کا لقب کیا تھا؟

Islam Ki Duniya

 ازقلم۔محمد اشفاق عالم نوری فیضی

رکن۔مجلس علماے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پور زونل کمیٹی کولکاتا۔136 رابطہ نمبر۔9007124164

ہندی اردو ساہتیہ سنسار

اللہ ربّ العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے کہ "وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کو خوشی ہے اور اچھا انجام۔"( سورہ رعد،پارہ 13) اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک تعالی نے اپنے ان بندوں کا ذکر فرمایا ہے جو ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کے شاندار اور نہایت قابل رشک انجام کا بیان فرمایا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کے صالح بندوں میں ایک بزرگ شخصیت حضور سیدنا غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے۔

غوث اعظم کا وصال

ولادت باسعادت:

حضرت پیران پیر دستگیر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسم گرامی عبدالقادر کنیت ابو محمد اور لقب مبارک محی الدین ہے ۔آسمانوں نے آپ کا لقب باز اشہب ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو غوث اعظم کے خطاب سے نوازا ہے۔آپ کی ولادت باسعات 470 ھ میں ایران کے ایک قصبہ جیلان میں ہوئی ۔اور 91 سال کی عمر پاکر 561 میں آپ کا وصال باکمال ہوا۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی کہانی

کراماتِ ولادت:

آپ کے والد ماجد حضرت ابو صالح جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت مبارک کی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ جناب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے ساتھ تشریف لائے ہیں،پورا مکان آپ کے انوار سے روشن ہو گیا اور حضور صلی اللہ وسلم نے خوش ھو کر ارشاد فرمایا: اے ابو صالح مبارک ہو آج اللہ تعالی نے تجھے وہ فرزند عطا فرمایا ہے جو میرا بیٹا اور محبوب ہے ۔یہ شیخ اعظم اور قطب زماں ہے۔(تفریح الخاطرص 12)

شیخ عبدالقادر جیلانی کا واقعہ

آپکا قدم مبارک:

 حضرت ابو صالح جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء کرام علیھم السلام نے بشارت دی کہ سوائے صحابہ کرام وائمہ عظام کے تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند اتکے تابع فرمان ہوں گے اور ان سب کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا۔(تفریح الخاطر ص12) اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کیا خوب فرماتے ہیں۔؀

جس کی ممبر بنی گردن اولیا

 اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام


 جس رات حضور غوثِ پاک کی ولادت ہوئی جیلان کی تمام عورتوں کی ہاں بچہ پیدا ہوا۔اور وہ گیارہ سو بچے تھے ۔اور وہ ہر بچہ اولیائے کاملین میں سے ہوا۔( تفریح الخاطر صفحہ 13)

شیر خوارگی میں روزہ:

حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ جب میرا فرزند ارجمند پیدا ہوا تو "رمضان مبارک میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا " چنانچہ اس واقعہ نے شہرت اختیار کر لی اور ایک دفعہ موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو چاند دیکھائی نہ دیا، تولوگوں نے میرے پاس آکر دریافت کیا کہ کیا سید عبدالقادر جیلانی نے دودھ پیا ہے یا نہیں؟تو میں نے بتایا میرے فرزند نے آج دودھ نہیں پیا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی یعنی وہ رمضان شریف کا دن تھا۔اور ہمارے شہر میں مشہور ہو گیا کہ سیدوں کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو کہ رمضان شریف میں دن کو دودھ نہیں پیتا۔( طبقات الکبریٰ جلد اول ص 136)


 آپکا بچپن:

حضورغوث پاک ابھی ہوش سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ یتیم ہوگئے اور آپ اپنے نانا جان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگے آپ مادر زاد ولی تھے آپ کی والدہ ماجدہ یکتائے زمانہ تھیں اور نانا جان جیلان کے مشائخ اور روسا میں سے تھے ۔ آپ نہایت پرہیزگار اور صاحب کمال تھے آپ صاحب کرامات اور مستجاب الدعوات تھے ۔( بہجۃ الاسرارص 89)آپ کی بہت ساری کرامات ہیں، جن میں سے صرف ایک کرامت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ابو عبداللہ قزوینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے کچھ ساتھی مال تجارت لے کر سمندر کی جانب روانہ ہوئے جب وہ ایک بیابان میں سے گزر رہے تھے تو اچانک ڈاکوؤں کے ایک بڑے گروہ نے حملہ کر دیا۔آپ کے مریدین نے اس پریشانی میں اپنے پیر و مرشد حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالی کو مدد کیلئے پکارا تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ اسی وقت انکے درمیان جلوہ گر ہیں۔ہمارا پاک رب پاک اور بے عیب ہے،اے سوارو! تم ہم سے الگ ہو جاؤ۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ ڈاکومنتشرہوگئے اور بھاگ کر جنگل کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت کو تلاش کیا مگر آپ کو نہ پایا اور وہم بخیریت جیلان پہنچے اور پیر بھائیوں سے یہ واقعہ بیان کیا اور وقت بتایا تو سبھوں نے کہا اللہ کی قسم ! حضرت اس وقت ہمارے درمیان تھے اور ہم سے غائب نہ ہوئے۔ (بہجتہ الاسرار ص89)

ہندی اردو ساہتیہ سنسار

تعلیم کا آغاز:

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا اور ابتدائی کتابیں پڑھ لیں اس کے بعد جیلان کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور تعلیم حاصل کرتی رہے۔


ولایت کا احساس:

سیدی غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ مادر زاد ولی تھے اس لئے دس سال کی عمر میں آپ کی کرامات کا ظہورشروع ہو گیا۔ چنانچہ آپ خود ارشاد فرماتےہیں " جب میں مدرسہ جایا کرتا تھا تو ایک نورانی فرشتہ انسانی شکل وصورت میں مجھے مکتب تک پہنچایا کرتاتھا اور مکتب میں پہنچ کر بچوں سے کہا کرتا تھا کہ عبدالقادر کے لئے جگہ وسیع کردو ،پھر وہ مجھے میری جگہ بٹھایا کرتا تھا۔(قلائدالجواہر ص134) ایک دفعہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو اپنے ولی ہونے کا کب سے علم ہوا ؟ آپ نے فرمایا میں دس سال کا تھا اور مکتب پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا ،تو میں ارد گرد فرشتوں کو چلتے دیکھتا تھا اور جب مکتب میں پہنچتا، تو انہیں یہ بات کہتے سنتا تھا کہ ولی اللہ کو بیٹھنے کے لئے جگہ دے دو۔آپ فرماتے ہیں ایک دن میرے پاس سے ایک ایسا شخص گزرا جسے میں ہرگز نہیں جانتا تھا، اس نے جب فرشتوں سے یہ بات سنی کہ کے ولی اللہ کو بیٹھنے کی جگہ دے دو، تو اس شخص نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کس کا لڑکا ہے تو اس شخص نے کہا کہ یہ عظیم الشان انسان ہوگا۔اس کے چالیس سال بعد وہ شخص مجھے دوبارہ ملا تومیں نے اس شخص کو پھچان لیا کہ وہ ابدال وقت ہے ۔(بہجتہ الاسرار ص 21)


طالب علمی کے صعوبتیں:

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ 488 ھجری بغداد شریف پہنچے۔ طالب علمی کے زمانے میں آپ کو انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑا، مگر یہ مشکلات آپ کے عازم مصمم کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں ۔آپ نے مدرسہ نظامیہ میں داخلہ لے لیا،جو اپنے دور کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی اور اس میں عالم اسلام کے قابل ترین اساتذہ کرام پڑھایا کرتے تھے۔آپ کے پاس چالیس دینار تھے، جو چند ماہ میں ختم ہو چکے تھے اور بیس روزفاقہ سے گزرے ۔ آپ فاقے پر فاقہ کرتے رہے مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا چار پانچ سال تو اتنی مصیبت میں گزارے شاید دنیا میں اس کی مثال نہ ملے آپ نے سالوں دریائے دجلہ کے کنارے کھالی گھاس اور سبز پتوں پہ زندگی بسر کی آپ دن بھر پڑھتے اور رات بھر فاقے کی اذیتوں میں گزارتے آپ کھنڈروں ،ویرانوں اور مسجد کے فرش پر پڑے رہتے۔ اس زمانے کا دستور تھا فصل کٹنے کا موقع پر قریب کے ایک گاؤں یعقوبہ میں جاکر طلباء زمینداروں سی اناج مانگ کر لاتے تھے ۔ایک بار طلباء نے ضد کرکے آپ کو بھی ساتھ لے لیا جب طلباء کے ہمراہ آپ یعقوبہ پہنچے ،تو وہاں کے ایک بزرگ جو شریف یعقوبی کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر فرمایب بیٹے! طالبان حق اللہ تعالی کی سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔غلہ مانگنا تمہارے شایان شان نہیں۔(قلائدالجواہر ص10)


 آپکا تقوی:

اس دور میں قحط سالی بھی ہوئی جس کی خبر دور دور تک پہنچی۔آپ فرماتے ہیں کہ جب بغداد میں قحط سالی ہوئی ، مجھے انتہائی تنگ دستی پہنچی کئی روز تک میں نے کھانا مطلقاً نہ کھایا ایک روز بھوک نے مجھے بہت ستایا،تو میں دجلہ کی طرف چلا گیا کہ شاید وہاں سبزی کے پتے مل جائیں،جو سبزی دھوتے وقت پھینک دیتے ہیں ۔میں جہاں جاتا،لوگوں کا ہجوم ہوتا ،آور جو کچھ ملتا اسے اٹھا لیتے ۔آخر کا‌رمیں بھوکا ہی شھر میں واپس آگیا ،وہاں مجھے کوئی ایسا موقع نہ ملا کہ کوئی چیز حاصل کرسکوں لوگ پھینکی ہوئی چیزمجھ سے پہلے ہی اٹھا لیتے غرض کہ میں پھرتا پھراتا سوق الریحانین( بغداد کی مشہور منڈی)کی مسجد میں پہنچا اور مسجد کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا اسی اثناء میں ایک فارسی نوجوان مسجد میں روٹی اور بھنا ہوا گوشت لے کر آئے اور اس طرح بیٹھ کرکھانے لگا۔بھوک کے غلبہ کی وجہ سے میرا یہ حال تھا کہ جب وہ لقمہ اٹھاتا،تو میں منہ کھول دیتا۔میں نے اپنے نفس کو اس حرکت سے منع کیا،اتنے میں اس شخص نے میری طرف دیکھا اور کہا آؤ بھائ!تم بھی کھانا کھاؤ میں نے انکار کیا،تو اس شخص نے ضد کرکے مجھے قسم دلائی اور مجھے کھانے میں شریک ہونے پر مجبور کیا۔ میرے نفس نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا اور اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کہاں کے باشندے ہیں اور کیا مشغلہ ہے؟ میں نے کہاجیلان کا رہنے والا ہوں اور طالب علم ہوں ۔اس نے کہا جیلان کا ایک نوجوان جس کا نام عبدالقادر ہے ،اسے تم جانتے ہو؟میں نے کہا وہ میں ہی ہوں یہ سن کر وہ بہت بے چین ہوا اور کہا خدا کی قسم بھائی میں تمہیں کئی روز سے تلاش کر رہا ہوں، جب میں بغداد میں داخل ہوا، میرے پاس ذاتی خرچ موجود تھا اور پھر تمہیں تلاش کیا ،مگر کسی نے تمہارا پتہ نہ دیا اورمیرا ذاتی رقم خرچ ہوگیا۔میں تین روز فاقے سے تھا اور آج مجبور ہوکر آپکی امانت جو آپ کی والدہ نے مجھے آپ کو پہنچانے کے لیے دی تھی،ایک وقت کا کھانا یہ روٹی اور گوشت لایا ہوں ۔اب آپ خوشی سے یہ کھانا تناول فرمائیں ،اس لئے کہ آپ کا ہی ہے میں اب آپ ہی کا مہمان ہوں آپ فرماتے ہیں میں نے اسے تسلی دی اور اپنی خوشنودی ظاہر کی اور کھانا دونوں نے کھایا اور جو کھانا بچا،وہ میں نے جوان کو واپس دے دیا اور کچھ نقدی بھی دی ،جسے وہ قبول کر کے رخصت ہوگیا۔(قلائدالجواہرص9/10) اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سبھوں کو حضورغوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے۔آمین ؀ 


واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

 اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلی تیرا


एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ