Ticker

6/recent/ticker-posts

کاش کاش |KAASH KAASH

جدید اردو افسانہ کاش کاش

کاش کاش

Hindi urdu sahitya sansar

ہندی اردو ساہتیہ سنسار

قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے۔ مجموعی طور پہ مسلمان زوال پذیر ہیں۔ اس کی وجہ اسلام نہیں بلکہ ہماری اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہم خود اسلام سے، اخلاق سے، محبتوں سے، اچھے کاموں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔اور اس میں دن بدن تیزی سےاضافہ ہو رہا ہے۔ بھیڑ چال ہے اور ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں اتنا محو ہے کہ اچھائی و برائی سوچے بنا ہی دنیا کی ریس میں گم دوڑے جا رہا ہے کہ میں کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں۔ اور ہر کام دنیا کیا کہے گی کے زیر اثر کرتے ہیں یعنی ہمارے ہر کام کرنے کے پیچھے مقصد دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور اس چکر نے ہمیں نہ دین کا رکھا اور نہ دنیا کا ہمارا طرز زندگی دوہرے معیار پہ قائم ہے ہم باتیں تو دین اسلام کی کرتے ہیں اور دلجوئی و چاہت دنیاداری کیلئے یہی وجہ ہے کہ تحریریں اثر نہیں کرتیں اور یہ کریں بھی کیوں، آخر کیوں ؟ جبکہ ہم قرآن پاک پہ غور وفکر نہیں کرتے اس کے پیغام کو پڑھتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے ایسے میں عام تحریروں کو کون سمجھنا چاہے گا جب ہم اپنے مفاد کے بنا نہ کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی کبھی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

         وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور ہم سب دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ دنیا کی چاہ میں ہر شخص فلاسفر بنا ہوا ہے بس تاویلوں کے چکر میں ہمارے ارد گرد حرص و ہوس کے سائے منڈلاتے پھرتے ہیں۔ ہم سب بوکھلائے ہوئے ہیں گفتار کے غازی ہیں سب ایسے میں لیڈر کہاں پیدا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں لیڈروں کا فقدان ہے اور اسلام دشمن قوتیں خوش ہیں اور ہمیں نیست و نابود کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایسے میں ہم اپنا کردار بھول چکے ہیں.ہمارا حال یہ ہے کہ پڑھا ہے تو سمجھا نہیں اور اگر سمجھ لیا تو عمل کرنے سے گریزاں وجہ یہی کہ بس لا حاصل کی تمنا لئے حاصل کی جستجو۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اب نبیوں نے نہیں آنا اللہ کا پیغام قرآن نے صاف صاف فرما دیا کہ دین مکمل ہوا اور ہم نے اپنی نعمت تمام کی کہ اب تم میں سے ایسے لوگ ہونے چاہیئں جو برائیوں سے روکیں اور اچھائیوں کی طرف راغب کریں۔ ہم ہیں کہ ہم نے برائی اور اچھائی کے پہلو ہی بدل دیئے۔اب برائی کو برائی سمجھا ہی نہیں جاتا یہی وجہ ہے کہ بازار حسن کو ثقافت و کلچر کا لبادہ اوڑھا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ ہماری اخلاقی پستی کو مزید زوال پذیر کرنے کیلئے دشمنان اسلام و عالمی قوتیں ہمیں جنسیئت ( یعنی فحاشی) کی طرف راغب کر رہے ہیں انگلش فلمیں دیکھیں ایک سین چند لمحوں کا گندہ تو ہے لیکن کہانی میں اس قدر دلچسپی پیدا کی جاتی ہے کہ اس میں بھی معلوماتی موڑ دیا جاتا ہے. انہی کی طرز پر ہم بھی پیچھے نہیں ہیں ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی کلچر و ثقافت کے نام پر جو ہماری فلمیں ہیں، ڈرامے ہیں، یا معلوماتی پروگرام خدا کے واسطے کبھی غور کریں شروع سے لے کر آخر تک اخلاق سے گری ہوئی نازیبا الفاظ کہانی ناپید اگر ہے بھی تو مرکز صرف سیکس ہی ہے جو بہت ہی آہستہ آہستہ دل و دماغ میں سرائیت کررہا ہوتا ہے جسکا نتیجہ حوا کی بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنانے کی صورت تک پہنچ جاتا ہےاور صنفِ نازک مہد سے لحد تک. . بلکہ لحد سے بھی آگے جہاں انسان کا تصور بھی نہیں پہنچتا کچھ بے غیرت وہاں تک معاف نہیں کرتے چاہے انکو ذہنی مریض قرار دیا جائےلیکن ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو فلموں اور ڈراموں سے متاثر لوگ عزتوں کو تارتار کرتے نظر آئیں گے۔
               بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور بہاؤ جوش کا کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ایسے میں بے حس معاشرہ پنپتا ہے اور آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اس سے ہم اچھائی اور برائی میں فرق ہی نہیں کر پاتے اور یوں جو بھی ہو رہا ہے ہمیں سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے آپ کو اس میں سے نکال کر اللہ سے بھی یوں گریہ زاری کرتے ہیں اس سے ہمکلام ہوتے ہیں اللہ میاں ہم تو تیرے بندے ہیں تیرے محبوب کے امتی ہیں گنہگار ہیں بس ہمیں معاف فرما مگر اس کے برعکس ہم ہر وہ کام ترجیح اول میں کرتے ہیں جن سے خدا نے منع فرمایا ہے ۔۔ کاش کہ ہم قرآن کے پیغام کو سمجھیں اس پہ غور فکر کریں اور اللہ کے وہ احکام جن پہ عمل کرنے کا حکم ہے من و عن عمل کریں اور جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان سے دوری اختیار کریں۔کاش تھوڑا سا وقت ہم خود اپنے آپ کو سدھارنے میں لگا لیں، سیکھنے میں لگا لیں، بدلنے میں لگا لیں، مثبت کاموں میں اپنی زندگی کو لگا لیں۔ یا پھر اسی طرح ہم نے دو کتابیں پڑھ کر ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ تبلیغ تو کرنی ہے اچھے شبد تو لکھنے ہیں. . . کالموں میں دنیا جہان کے قلابے ملا کر اپنے آپ کو الگ سے دکھانا ہے کہ جیسے دودھ کے دھلے ہوں. . . لیکن عمل ندارد. . . عمل سے جان جاتی ہے. . عمل حقیقت میں ایسی شے ہے کہ خود تو بدلنا ہی ہوتا ہے اس کے اثر سے دوسرے بھی بدلتے ہیں. . . . . کاش ہم روز یا ہفتے کے حساب سے اپنے اندر تبدیلی لائیں کچھ برے کام چھوڑ دیں کچھ اچھے کام اپنا لیں پھر دیکھیں. . . . . معاشرے میں. . . . تبدیلی آتی ہے یا نہیں. . لیکن ہمیں تو عادت ہی نہیں ہے ہماری تو عادتیں ہی دنیا کے پیچھے بھاگ بھاگ کر بدل چکی ہیں اپنے اصل سے بہت دور۔ کاش ہم اچھی اور بری باتوں کی پہچان ہی کر لیں تو ایک دن بدل بھی لیں گے خیالات کو،حالات کو اور اپنے آپ کو ۔۔ کاش ! کاش ! کاش ! ہم اتنا ہی سمجھ لیں کہ قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہیں ، مگر وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، حق بات کی اور صبر کی تلقین کرتے رہے.

Kash kash Urdu Story


بکھرے ہوئے ہیں درد کے عنوان سینکڑوں

اب کے نیا محاذ نئی جنگ چاہیئے

تعریف ہو چکی لب و رخسار کی بہت

شعرو ادب میں ایک نیا رنگ چاہیئے

محمد اظہر

(گلاسگو)

Kash kash Urdu Story

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ