Ticker

6/recent/ticker-posts

آہ سابق ڈپٹی کمشنر ماسٹر محمد نظام الدین صاحب نہیں رہے

آہ سابق ڈپٹی کمشنر ماسٹر محمد نظام الدین صاحب نہیں رہے

محمد قمر الزماں ندوی
موت برحق اور اٹل حقیقت ہے، ہرشخص کو اس دار فانی سے الوداع کہنا ہے، اور دار باقی کی طرف کوچ کرنا ہے، آج (3 / دسمبر 21 بروز جمعہ )شام، سات بجے ہمارے خالو اور سسر محترم جناب ماسٹر سلطان محی الدین صاحب(لوبندہ)کے سگے چھوٹے بھائی ماسٹر محمد نظام الدین شمسی صاحب سابق ڈپٹی کمشنر ۷۵// سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے، وہ ایک طویل عرصہ سے بستر مرض پر تھے اور موت و حیات کی کشمکش میں تھے۔ وہ علم جدید و قدیم کے سنگم تھے، کئ زبان پر ان کو عبور حاصل تھا، عربی، اردو، فارسی ہندی اور انگریزی زبان پر ان کو دسترس حاصل تھا، معاشیات پر انگریزی اخبارات میں ان کے مضامین چھپتے تھے۔

انتہائی اخاذ طبیعت کے مالک تھے، خداداد ذہانت ملی تھی

انتہائی اخاذ طبیعت کے مالک تھے، خداداد ذہانت ملی تھی، ہر ایک کو مسکت اور بے جواب کردیتے تھے، ابتدائی اور عالمیت تک کی تعلیم علاقہ کے مشہور مدرسے میں ہوئی اور پھر مزید اعلی تعلیم کے لیے مدرسہ شمس الھدیٰ پٹنہ اور پٹنہ یونیورسٹی گئے اور وہیں تعلیم مکمل ہوئی۔ وہ سنتھال پرگنہ کے ایک فعال تنظیم انجمن اسلامیہ جمہوریہ کے نائب صدر اعلی بھی رہے، جس تنظیم کے قائم ہوئے سو سال زیادہ ہوچکے ہیں۔ سوسال پورے ہونے پر انجمن کی طرف سے دو سو نو صفحات پر مشتمل ایک دستاویزی مجلہ شائع ہوا تھا، جس میں مرحوم کی زندگی اور کارنامے کو عزیز القدر محمد ظفر سلمہ جو ان کے چچیرے نواسے ہیں، انہوں نے مضمون ترتیب دیا تھا۔ مرحوم ماسٹر نظام الدین صاحب سابق ڈپٹی کمشنر کی زندگی اور ان کے حالات کو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ یقینا ان کی زندگی اور جہد و جہد ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی زندگی نئی نسل کو مہمیز لگا سکتی ہے۔ محمد قمر الزماں ندوی

سابق ڈپٹی کمشنر محمد نظام الدین صاحب (مؤظف) 
ہزاروں میں کوئی شیریں کوئی فرہاد ہوتا ہے

محمد ظفر ندوی
متعلم / جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی

سابق ڈپٹی کمشنر محمد نظام الدین صاحب چنندہ، مایہ ناز، نابغہ عصر اور عبقری شخصیات میں شامل ہیں، جن کو خدا نے گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا ہے‌۔ بہت سے علاقائی فوقیت رکھنے والے لوگ وسائل کی فراوانی کے باوجود ایسی حصولیابیوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

پیدائش، ابتدائی تعلیم اور خاندانی پس منظر

آپ کی پیدائش 1947 میں کھٹنئی میں ہوئی۔ اور ابتدائی تعلیم کی عمر کو جب پہنچے تو لوبندہ آگئے۔ آپ کا گھرانہ خالص علمی تھا، آپ کے والد حاجی امام الدین رحمتہ اللہ علیہ علاقے کے ان مایہ ناز ہستیوں میں شامل تھے جنہیں قبولیت عام حاصل تھی، وہ قوم و ملت کے غمخوار و غمگسار تھے، انجمن اسلامیہ جمہوریہ کے مجلس مشاورت میں بھی شامل رہے، مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذہب کے افراد انہیں اپنا ہمدرد اور ذمہ دار تصور کرتے تھے‌۔ وہ گورنمنٹ عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ متشرع، خداترس، بزرگ اور عابد وزاہد انسان تھے۔ علاقے میں وہ "مولوی صاحب" کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی پڑھی لکھی اور دیندار خاتون تھیں۔ لہذا گھر کا ماحول خالص علمی ہونے کی وجہ سے محمد نظام الدین صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ پھر اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یہاں سے نکلے۔ ابتدائی دور میں مالی فراوانی کی قلت تھی اور وسائل کی بھی کمی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے وسائل کی عدم دستیابی کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا، بلکہ اپنی محنت، لگن، تمنا، ولولہ اور جذبہء شوق کے بل بوتے پر آرزؤں کے پروں پر سوار ہوکر حصول علم کی خاطر جہد مسلسل، اور سعئ پیہم کرتے رہے اور علم کی کہکشاں بن کر اپنے وجود سے ماحول کو منور کیا، اور اپنی زندگی کو گلزار بنایا سچ کہا ہے شاعر نے:
’’گر جہد مسلسل ہو اور سعئ پیہم بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش‘‘

حصولِ علم

نظام الدین صاحب نے وسطانیہ مدرسہ اسلامیہ کیتھا ٹیکر سے کیا۔ اور اس وقت وہاں باضابطہ تعلیم ہوتی تھی۔ وہاں کے جن مائہ ناز اساتذہ سے آپ نے کسب فیض کیا ان میں مولانا عصمت اللہ صاحب شسمسی، مولانا محمد صاحب قاسمی اور قاری سید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہم اجمعین قابل ذکر ہیں۔

وسطانیہ کے بعد فوقانیہ، اور مولوی مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن دگھی سے پاس کیا اور اُس وقت اس مدرسے کا طوطی بولتا تھا، بڑے بڑے صاحب استعداد اور ذی علم اساتذہ یہاں درس دیا کرتے تھے۔ اور پورے علاقے میں یہاں کے فارغین جو اُس دور کے پروردہ ہیں آج بھی کہکشاں کی طرح جگمگاتے ہیں۔

فوقانیہ کے بعد عالم کے لیے مدرسہ اسلامیہ سمریا بھاگلپور کا رخت سفر باندھا۔ اور عالم مکمل کرنے کے بعد فارسی میں شمس الھدیٰ پٹنہ سے فاضل کی ڈگری حاصل کی اور بطور ریسرچ اسکالر "دیوان رضی" پر انھوں نے اپنا مقالہ لکھا۔ اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعد وہ پٹنہ یونیورسٹی میں ہی لکچرر مقرر ہوئے۔ پھر سہرسہ میں ہائی اسکول کے ٹیچر منتخب ہوئے۔

لیکن ان کے افکار میں بلندی تھی، اور شاہینی فطرت پائی تھی لہذا اسی پر قناعت کرکے مطمئن نہیں رہ گئے بلکہ علم و فن کے اس شہسوار کو مزید بلندیوں پر پہنچنے اور آسمان چھو کے آنے کی ضد تھی وہ بلندیوں کے سلسلے میں لفظ قناعت سے واقف ہی نہیں تھے گویا ان کی طبیعت کہتی تھی کہ:
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
’’چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اور
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں‘‘

لہذا انھوں نے محنت و مشقت جاری رکھی اور کہتے رہے کہ:

’’گزرجا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے‘‘

لہذا انہوں نے ہندوستان کے ہائی لیول امتحان IPS جو ہر ذہین و فطین طالب علم کا اک خواب ھوتا ہے اور خواب ہی رہ جاتاہے پاس کیا، مگر قدِ مطلوبہ ذرا کم رہ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کا انتخاب نا ہوسکا۔ لیکن وہ شکست نہیں مانے بلکہ وہ عربی شاعر "تأبّط شرّا" کے اس شعر کا مصداق تھے کہ:
فذاكَ قَريعُ الدهرِ ما عاشَ حُوّلُ
إذا سُدّ منه مَنْخرٌ جاشَ مَنْخِرُ
کہ "وہ زمانے میں شگاف لگانے والے ہیں، اور جب تک اس کی حیاتِ مستعار کی سانسیں چلتی رہتی ہیں وہ تدابیر اختیار کرتے رہتے ہیں، لہذا ان کے لیے جب کوئی راہ بند ہوجاتی ہے تو دوسری راہیں تدبیر و مہارت سے کھل جاتی ہیں"

لہذا‌ انہوں نے اس کے بعد BPSC کے لیے کوششیں کیں اور اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ اور فائنانس ڈپارٹمنٹ میں وہ مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے وہ ریٹایرڈ ہوئے۔

انہیں انجمن کا نائب صدر اعلی بنایا گیا

انجمن اسلامیہ جمہوریہ نے ان کی اعلیٰ تعلیم اور اعلی عہدہ ومناصب کی بنیاد پر انہیں انجمن کا نائب صدر اعلی بنایا لیکن ان کی زندگی کے ہجوم شغل نے انہیں اس طرف توجہ مبذول کرنے کی فرصت نہیں دی اور اپنے سرکاری عہدے کے فرائض منصبی اور ذمہ داریاں ادا کرنے کی خاطر ہمیشہ علاقے سے باہر ہی رہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جسے میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ ان تمام کامیابیوں، حصولیابیوں، عزت و شہرت، دولت و ثروت کے باوجود ایسی عظیم اور عبقری شخصیت سے قوم کی قیادت تشنہ رہ گئی۔

عربی، اردو، ہندی، فارسی اور انگلش پر بیک وقت یکساں عبور رکھتے تھے

موصوف عربی، اردو، ہندی، فارسی اور انگلش پر بیک وقت یکساں عبور رکھتے تھے، ساتھ ہی علم کلام اور مذہبی مسائل پر مکمل گرفت تھی، اکنامکس پر ان کو قدرت حاصل تھی ہی، اخبارات میں معاشیات سے متعلق مضامین بھی لکھتے تھے۔ اپنی معاصرین میں وہ سب سے نمایاں، ممتاز، ذہین، باکمال اور باصلاحیت تھے۔

اخلاق وعادات

مصروف زندگی کے باوجود نماز کے بہت پابند تھے، کسی بھی حالت میں ان کی نماز ترک نہیں ہوتی۔ بلکہ دوسروں کو بھی نماز کی تلقین کیا کرتے، جب بھی لوبندہ آتے نماز مسجد میں ادا کرتے، فجر کی نماز میں اگر کوئی نظر نا آتا تو نماز کے بعد ان کے گھر پے جاتے اور نماز کی تلقین کرتے، اس معاملے میں وہ امیر و غریب کی تفریق نہیں کرتے۔ وہ ملنسار بھی تھے کسی کے گھر میں جاکر چٹائی پر بھی بیٹھ جاتے اگر وہ تکلف کرتے تو منع کردیتے اور چٹائی ہی پر بیٹھ کر گفتگو کرتے۔

اعلی تعلیم، اعلی عہدہ و مناصب کے باوجود ان کے مزاج میں تواضع، نرمی، عاجزی اور انکساری تھی، جب وہ گھر آتے تو گھر کے کام اور کاشت کاری کے متعلق ہر چھوٹے بڑے کام کرتے۔ لیکن اس تواضع اور عاجزی و انکساری کے باوجود لوگ ان سے گفتگو کرنے میں مکمل ادب اور شائستگی کا خیال رکھتے۔ حق گو اور حق پسند تھے۔ کم سخن اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ گفتگو کا سلیقہ خوب تھا۔ وہ ہر شخص سے اسی کے مقام و مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے گفتگو کرتے‌۔ کبر، نخوت، عجب جیسے عیوب سے پاک تھے، اقرباء پروری ان کے اندر بہت تھی، اپنے رشتے داروں کی خفیہ طور پر مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ ان کی مثال "بحتری" کے اس شعر کی مانند ہے کہ:

دنوتَ تواضعًا وعلوتَ مجدًا
فشأنكَ انخفاضُ وارتفاعُ
كذاك الشمسُ تبعُدُ أن تُسامى
ويدنو النورُ منها والشعاعُ

کہ "آپ تواضعا قریب ہوتے ہیں حالانکہ آپ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کے اندر جھکاؤ اور بلندی دونوں بیک وقت موجود ہیں، جس طرح کے سورج بہت دور ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی روشنی اور اس کی شعاعیں قریب ہوتی ہیں" ____ ریٹائرمنٹ سے کچھ قبل ہی سے ان کے مزاج میں کچھ تبدیلی واقع ہوگئی۔

اہل وعیال

اہل عیال میں پانچ فرزند اور دو صاحبزادیاں ہیں آپ نے دو شادیاں کی تھیں، ایک بیوی اس دارفانی سے رخصت ہوچکی ہیں (اللہ ان کی قبر کو نور منور کرے) جب کہ دوسری بیوی بقید حیات ہیں۔ اہل خانہ خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔ حالیہ ایک عرصے سے کافی علیل اور صاحبِ فراش ہیں۔

وہ قوم و ملت اور خصوصا نوجوانوں کے لیے عمدہ مثال اور آئیڈیل ہیں۔ وہ زبان حال سے نوجوان نسل کو وہی پیغام دیتے نظر آتے ہیں جو علامہ شبلی نعمانی نے دیا تھا کہ:

کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو کچھ ہم سے بن آئے
یہ قصہ جب کا ہے باقی تھا جب عہد شباب اپنا

اور اب تو سچ یہ ہے جو کچھ امیدیں ہیں وہ تم سے ہیں
جواں ہو تم، لبِ بام آ چکا ہے آفتاب اپنا

اخیر میں آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ ان کی صحت و عافیت کے لیے خصوصی دعائیں کریں۔ اور نوجوان نسل کو ایسی عظیم شخصیات کے کارناموں سے واقف کرائیں تاکہ آنے والی نسل کے اندر بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہو اور اس لیے بھی ہمیں ان کی قدر کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی عظیم شخصیتیں زمانے کی گردشوں میں کہیں کھو نا جائیں کیوں کہ:
’’کمال عاشقی ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی
ہزاروں میں کوئی شیریں کوئی فرہاد ہوتا ہے‘‘

افسوس کہ آج یہ عظیم شخصیت اور جدید و قدیم کا سنگم ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔
’’آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے‘‘

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ