Ticker

6/recent/ticker-posts

اسلام بےجاسختی اور تشدد کو پسند نہیں کرتا، اسلام اخلاق سے پھیلا ہے تلوار سے نہیں

اسلام بےجاسختی اور تشدد کو پسند نہیں کرتا، اسلام اخلاق سے پھیلا ہے تلوار سے نہیں

اسلام، بےجاسختی اور تشدد کو پسند نہیں کرتا
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد غزوئہ حنین سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں انصار و مہاجرین کے تین سو پچاس افراد پر مشتمل ایک جماعت بنو جذیمہ کی طرف اسلام کی دعوت کی غرض سے بھیجی،وہ لوگ اسلام کا اقرا ٹھیک طرح نہ کرسکے اور اسلمنا ( ہم نے اسلام قبول کیا) کی بجائے صبئانا ( ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا) کہتے رہے،چونکہ قریش اسلام قبول کرنے والے کے لئے اسلم فلان کی جگہ صبئا فلان استعمال کرتے تھے اس لئے بنو جذیمہ نے اسلام کا اقرار صبئنا صبئنا کہہ کر کیا صبئا کے معنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکلنے کے ہیں، اس لفظ میں چونکہ اقرار اسلام کا مفہوم اچھی طرح واضح نہیں تھا۔ اس لئے حضرت خالد بن ولید نے ان میں سے بعض کو قتل کر دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر اور اطلاع ہوئ تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’اللھم انی ابرا الیک مما صنع خالد‘‘

بار الہا جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے بری ہوں ۔
اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مال دے کر بنو جذیمہ کے پاس بھیجا اور ان سب مقتولین کی دیت خون بہا مسلمانوں کی طرف سے ادا کی ۔ ( عمدة القاری جلد ۱۷/ صفحہ ۳۱۳/ بحوالہ کتابوں کی درس گاہ میں صفحہ ۶۲)

اسلام دہشتگردی نہیں امن چاہتا ہے

نسائی اور بیھقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے صحیح سند کے ساتھ اس واقعہ میں انسانی عشق اور مرنے والے پر مرنے کا بھی ایک عجیب و غریب واقعہ کا اضافہ کیا ہے، ہم اس کو بھی نقل کرتے ہیں : بنو جذیمہ کے ان قیدیوں میں سے ایک قیدی مسلمانوں سے کہنے لگا، میں بنو جذیمہ کا آدمی نہیں ہوں ۔ البتہ اس قبیلہ کی ایک خاتون سے مجھے عشق و محبت ہے،آپ ان عورتوں کے پاس مجھے لے چلیں،میری آرزو اور تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے اک نظر اس خاتون کو دیکھ لوں، اس قیدی کو خواتین کے خیمہ کی جانب لایا گیا،اس نے وہاں چند اشعار پڑھے،پھر جوں ہی اس قیدی کو قتل کیا گیا،محمل سے ایک عورت اس نعش پر گر پڑی اور دو تین چیخوں کے بعد اس کا فلسفہ زندگی بھی ختم ہوگیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس واقعہ کی تفصیل بیان کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اما کان فیکم رجل رحیم کیا تم میں کوئی رحم دل آدمی نہیں تھا ؟
(فتح الباری جلد ۸/ صفحہ ۵۸)

اسلام کی دعوت، تبلیغ و اشاعت میں منسلک لوگوں کے لئے عظیم پیغام

دعوت و تبلیغ کے میدان میں کام کرنے والوں اور اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں منسلک لوگوں کے لئے اس واقعہ میں ایک عظیم پیغام ہے کہ اس راہ میں تشدد،ارھاب،سختی اور شدت (پسندی ) کی قطعا گنجائش اور اجازت نہیں ہے اور نہ کسی کی نیت اور اندورن کو ٹٹولنے اور جھانکنے کی اجازت ہے، جو لوگ بات بات اہل قبلہ یعنی مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اپنے علاوہ سب کو راہ حق اور جادئہ اعتدال سے منحرف سمجھتے ہیں ان کو اس واقعہ سے ضرور سبق لینا چاہیے اور اپنے گریبان کو ضرور جھانکنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنا محاسبہ بھی ضرور کرنا چاہیے ۔

بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے : عفو و درگزر قرآن کی روشنی میں

اسلام تسامح، درگزر اور معاف کرنے والا مذھب ہے یہ مذھب کسی بھی معاملہ میں شدت اور بے جا سختی کو پسند نہیں کرتا لا اکراہ فی الدین( دین میں کوئی جبر و اکراہ اور زبردستی نہیں) اس مذھب کا مسلمہ اور خدائی اصول و ضابطہ ہے ۔

معاف کرنے کی حدیث، عفو و درگزر کے فوائد، معاف کرنے کے فضائل

اس لئے دعوت کے کام کرنے والے کو وسعت قلبی کشادہ دلی وسعت ظرفی اور تسامح و درگزر سے کام لینا چاہیے اور تدریجی مراحل کا جو اسلام کا ایک خاص اصول و امتیاز ہے اس کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم احکام کا بوجھ یک بارگی لوگوں پر نہیں ڈالنا پسند کرتے تھے،بلکہ اس سلسلہ میں انتہائی صبر آزما مرحلوں سے گزرتے، بتدریج لوگوں کو اسلام پیش کرتے۔ بنو ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ایسی شرطیں لگائی تھیں جن میں معقولیت نہیں تھی، کچھ شرطیں تو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف تھیں، مگر حضور ﷺ نے تمام شرطوں کو تسلیم کرلیا اور فرمایا،، کہ چند دنوں میں وہ خود سارے عقائد و اعمال کو اپنے دین میں شامل کرلیں گے۔ (حیات الصحابہ ۱/۶۳)

اسلام میں دعوت و تبلیغ کے اصول،صحابہ کرام کی زندگی سے دعوت کی مثالیں

آنحضرتﷺ دعوت دین کو پیش کرنے کے دوران منطقی طرز استدلال سے کام لیتے، مخاطب کی اس طرح تربیت کرتے کہ خود بخود صحیح راہ پر آجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز استدلال سے مخاطب کی تمام فکری و شعوری قوتیں جاگ اٹھتیں، اس کی فطرت اور عقل کو صحیح راہ نمائی ملتی، اس میں منفی طرز فکر پیدا ہونے کے بجائے حقیقت پسندی آجاتی تھی، فکر و استدلال کے پرانے طریقے اس کی نگاہوں میں پھیکے معلوم ہونے لگتے۔ (مستفاد امثال الحدیث، ۱۸۸)

انبیاء کرام کی دعوت کا طریقہ | دعوت دین اور اس کا طریقہ کار

آج سے دو سال قبل تکیہ کلاں رائے بریلی میں پیام انسانیت کے دو روزہ سالانہ اجتماع و مشاورتی اجلاس کے اختتامی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مولانا سید سلمان ندوی ابن علامہ سید سلیمان ندوی رح ( سابق پروفیسر ڈربن یونیورسٹی افریقہ ) نے فرمایا کہ دعوت و تبلیغ کے لئے موعظت سے پہلے حکمت کو اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید نے دیا ہے جب تک داعی حکیم نہیں ہوگا وہ حکمت دعوت اور مخاطب کی نفسیات سے واقف نہیں ہوگا وہ دعوت کا صحیح کام نہیں کرسکتا ۔ حکمت اور اخلاق حسنہ کو اپنانا داعی اور مبلغ کے لئے بے انتہا ضروری ہے اس سلسلہ میں مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی مدظہ العالی نے کئ مثالیں اور واقعات بھی بیان کئے آپ نے جگر مرادآبادی کا واقعہ سنایا کہ وہ شاعر تھے لیکن پینے کھانے کے بھی عادی تھے ایک بار توبہ کرلیا لیکن توبہ پر قائم نہیں رہ سکے جس کا افسوس ان کو پوری زندگی رہا چونکہ ان کا دل مسلمان تھا ان کو اپنے جرم اور غلطی کا احساس تھا دیندار اور صوفیانہ گھرانے سے تعلق تھا ایک خراب عادت کی لت لگ گئی تھی، توبہ کے قریب پہچ چکے تھے ایک موقع پر خواجہ عزیز الحسن مجذوب سے تذکرہ کیا کہ میں حضرت تھانوی سے ملنا چاہتا ہوں خواجہ صاحب مولانا تھانوی رح کے بہت قریبی مسترشدین میں سے تھے اور وہ خود بھی شاعر تھے انہوں ٹال دیا کہ شرابی ہے کہاں اس کو خانقاہ لے کرچلیں وہاں بھی اگر پی کر چلے گئے تو کیا ہوگا؟

بات ختم ہوگئ جلد ہی کسی مجلس میں خواجہ مجذوب نے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ جگر صاحب آپ سے اسی حالت میں ملنا چاہتے تھے، لیکن میں نے ٹال دیا اور ان کو یہاں نہیں لایا ۔ حضرت تھانوی رح نے فرمایا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا ابھی تک اتنے دن رہ کر میرے مزاج و مذاق کو آپ نے نہیں سمجھا ان کو لے آتے اللہ تعالی سے دعا کرتا ان کو توبہ کی توفیق ملتی آپ نے اچھا نہیں کیا ۔ اگر وہ یہاں آکر اس کی خواہش کرتے تو میں خانقاہ میں تو نہیں پینے دیتا لیکن ان کو آرام گاہ میں پینے دیتا ۔ اور جلد ہی وہ توبہ بھی کرلیتے ۔ بعد میں ایسا ہی ہوا وہ آئے اور صدق دل سے تائب ہوئے اور پھر حضرت تھانوی رح اور دیگر اکابر کے معتمد بن گئے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ان سے بہت محبت کرتے تھے انہوں نے پرانے چراغ میں ان کا مفصل تذکرہ فرمایا ہے۔ بعد کے دنوں میں جگر صاحب نے غزلیہ شاعری سے توبہ کر لی اور نعتیہ شاعری شروع کردی ۔ 
قارئین باتمکین!

بات سے بات نکلتی چلی گئی پیغام لمبا ہو گیا ۔ خیر اوپر جو تفصیلات آئیں، اس میں ہم سب کے سیکھنے سمجھنے اور کے لئے بہت کچھ ہے، خدا تعالی ان باتوں پر عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق دے آمین ۔ ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ